سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی طرف سے قومی احتساب بیورو (نیب) ترامیم کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے فل کورٹ تشکیل دینےکی تجویز دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح کے معاملات فل کورٹ ہی سن سکتی ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے نیب ترامیم کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے سماعت کے آغاز میں ہی فل کورٹ تشکیل دینے کی تجویز دیتے ہوئے ریمارکس دیے کہ میں نے خصوصی عدالتوں سےمتعلق کیس میں 22 جون کو نوٹ لکھا، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس، فل کورٹ کو سننا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اب تک پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا فیصلہ نہیں ہوا، اگر فیصلہ ہو جاتا تو معاملہ مختلف ہوتا، چیف جسٹس سے آج بھی درخواست کرتا ہوں کہ نیب ترامیم فل کورٹ سنے۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث خرابی صحت کے باعث عدالت میں پیش نہ ہو سکے، خواجہ حارث کے معاون وکیل ڈاکٹر یاسر عمان پیش ہوئے جنہیں عدالت نے دلائل دینے کی اجازت دے دی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ فریقین آئندہ سماعت پر حتمی دلائل دیں، یہ کیس 2022 سے زیرالتوا ہے، 2023 میں نیب قانون میں کی گئی ترامیم کو ہمارے سامنے کسی نے چیلنج ہی نہیں کیا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا ایکٹ کے بعد موجودہ بینچ کو سماعت جاری رکھنی چاہیے؟ چیف جسٹس نے کہا کہ مخدوم علی خان، جسٹس منصور شاہ کے سوالات پر تیاری کرکے آئیں، کیا یہ کیس الگ کیس ہے جس پر قانون لاگو نہیں ہوتا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ہر کیس کے اپنے حقائق اور میرٹس ہوتے ہیں، ایک کیس میں دی جانے والی رائے صرف اسی کیس کے لیے ہوتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اصول واضح ہے، اختلاف رائے آنے پر فیصلہ اکثریت کا ہوتا ہے، اب تک 22 سماعتوں پر درخواست گزارا ور 19 سماعتوں پر وفاقی حکومت کے وکیل نے دلائل دیے، یہ کیس اتنا لمبا نہیں تھا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیس میں پہلےدن سے پوچھ رہا ہوں کہ کونسے بنیادی حقوق متاثر ہوئے ہیں، 47 سماعتوں سے اب تک نہیں بتایا گیا کہ کونسا بنیادی حقوق متاثرہوا۔
چیف جسٹس نے مخدوم علی سے استفسار کیا کہ آپ میرٹ پردلائل دینے سے کیوں کترا رہے ہیں؟ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ میرٹ پر دلائل دینے سے نہیں کترا رہا، مقدمے کے قابل سماعت نہ ہونے کا نکتہ اٹھانا میری ذمہ داری ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ سماعت سے نکلنے کی کوشش کیوں کر رہے ہیں، مخدوم علی خان نے کہا کہ عدالت کا اختیار ہے کہ میرا مؤقف تسلیم کرے یا مسترد کردے۔ معاون وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ عدالت کو تحریری طور پر تمام جوابات دے چکے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ مقدمے کی روانہ کی بنیاد پر سماعت کرکے فیصلہ کریں گے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اس پر بھی دلائل دیں کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے بعد کیا بینچ یہ کیس سن سکتا ہے؟ چیف جسٹس نے کہا کہ میری ریٹائرمنٹ قریب ہے، فیصلہ نہ دیا تومیرے لیے باعث شرمندگی ہوگا، اہم معاملہ ہے اور اس کی طویل عرصے سے سماعت بھی ہو رہی ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے نکتے پر عدالت میں کوئی بحث ہی نہیں ہوئی۔ عدالت نے کیس کی سماعت 28 اگست تک ملتوی کردی۔
نیب ترامیم:
خیال رہے کہ جون 2022 میں مسلم لیگ (ن) کی زیر قیادت اتحادی حکومت نے نیب آرڈیننس میں 27 اہم ترامیم متعارف کروائی تھیں لیکن صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ان کی منظوری نہیں دی تھی، تاہم اس بل کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظور کیا گیا اور بعد میں اسے نوٹیفائی کیا گیا تھا۔ نیب (دوسری ترمیم) بل 2021 میں کہا گیا ہے کہ نیب کا ڈپٹی چیئرمین، جو وفاقی حکومت کی جانب سے مقرر کیا جائے گا، چیئرمین کی مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد بیورو کا قائم مقام چیئرمین بن جائے گا، بل میں چیئرمین نیب اور بیورو کے پراسیکیوٹر جنرل کی 4 سال کی مدت بھی کم کر کے 3 سال کردی گئی ہے۔ قانون کی منظوری کے بعد نیب وفاقی، صوبائی یا مقامی ٹیکس کے معاملات پر کارروائی نہیں کر سکے گا، مزید یہ کہ ملک میں کام کرنے والے ریگولیٹری اداروں کو بھی نیب کے دائرہ کار سے باہر نکال دیا گیا ہے۔ بل میں کہا گیا ہے کہ اس آرڈیننس کے تحت افراد یا لین دین سے متعلق زیر التوا تمام پوچھ گچھ، تحقیقات، ٹرائلز یا کارروائیاں متعلقہ قوانین کے تحت متعلقہ حکام، محکموں اور عدالتوں کو منتقل کی جائیں گی، بل نے احتساب عدالتوں کے ججوں کے لیے 3 سال کی مدت بھی مقرر کی ہے، یہ عدالتوں کو ایک سال کے اندر کیس کا فیصلہ کرنے کا پابند بھی بنائے گا۔ مجوزہ قانون کے تحت نیب کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ ملزم کی گرفتاری سے قبل اس کے خلاف شواہد کی دستیابی کو یقینی بنائے، بل میں شامل کی گئی ایک اہم ترمیم کے مطابق یہ ایکٹ قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے شروع ہونے اور اس کے بعد سے نافذ سمجھا جائے گا۔