پانامہ جے آئی ٹی رپورٹ کا والیم 10 کھولنے سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے براڈشیٹ کے وکیل لطیف کھوسہ کو پاکستانی عوام کے حق کی بات کرنے اور سیاسی دلائل دینے سے روک دیا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ’والیم 10 کھلوانا ہے تو 184 تین کے تحت درخواست لا سکتے ہیں۔ مسٹر سٹورٹ کے کندھے پر رکھ کر پاکستانی عوام کے حق کی بات نہ کریں۔‘ منگل کو براڈشیٹ کمپنی کی پانامہ جے آئی ٹی کے والیم 10 تک رسائی سے متعلق درخواست کی چیف جسٹس کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے سماعت کی۔ دوران سماعت جب لطیف کھوسہ نے والیم 10 کے بارے میں جاننا عوامی حق قرار دیا تو عدالت نے انہیں کہا کہ ’آپ براڈشیٹ کے نمائندے ہیں، پاکستانی عوام کے حق کی بات نہ کریں۔‘ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ’عالمی عدالت کی ثالثی کے لیے والیم 10کھولنے کا کہا گیا تھا
تاہم ثالثی کا عمل مکمل ہوچکا ہے اب یہ درخواست غیر موثر ہوچکی ہے۔‘ براڈشیٹ کمپنی کے وکیل لطیف کھوسہ نے دلائل میں کہا کہ ’پانامہ جے آئی ٹی کے والیم 10 میں ایسا کیا ہے کہ اسے خفیہ رکھا جائے؟ آرٹیکل 19 اے کے تحت عوام کا حق ہے کہ وہ دیکھیں کیسے ملک کو لُوٹا گیا۔‘ جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کہ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے پانامہ کیس کے فیصلے میں والیم 10 کے بارے میں کوئی آبزوریشن دی تھی؟‘ ’ہم اس طرف نہیں جائیں گے کیونکہ پانامہ کیس میں ملک کے منتخب وزیراعظم کو ہٹایا گیا۔ ’آپ کو والیم 10 ثالثی کورٹ میں کارروائی کے لیے چاہیے تھا۔ وہاں معاملہ نمٹ چکا، اب تو آپ کی درخواست غیر موثر ہو گئی ہے۔‘ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’براڈشیٹ کو نیب نے 28 ملین ڈالر ادا کر دیے ہیں۔‘ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ’اس معاملے پر آپ 184 تین کے تحت ہی درخواست لا سکتے ہیں مگر آپ مسٹر سٹورٹ کے کندھے پر رکھ کر مفاد عامہ کی بات نہ کریں۔‘
جسٹس اطہر من اللہ نے وکیل لطیف کھوسہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’کیا آپ پانامہ فیصلے پر دوبارہ نظرثانی کرانا چاہتے ہیں؟‘ وکیل لطیف کھوسہ بولے ’نہیں میں پانامہ فیصلے میں جانا نہیں چاہتا۔‘ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ’سیاسی باتیں کرنے کے بجائے قانونی نکات تک ہی محدود رہیں۔‘ ’آپ یہاں پاکستانی عوام کی نہیں براڈشیٹ کمپنی کی نمائندگی کے لیے آئے ہیں اس لیے بہتر ہو گا آپ پاکستانی عوام کی نمائندگی کی بات نہ کریں۔‘ ’کیا پانامہ کیس کے فیصلے میں سپریم کورٹ نے پانامہ جے آئی ٹی والیم 10 کا ذکر بھی کیا یا پھر آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی پانامہ بینچ نے کسی کی حمایت کی تھی؟‘ وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ ’میں صرف چاہتا ہوں کہ عوام کے سامنے حقائق آئیں۔‘
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ’انگریزی کا لفظ ہے’ریلکس‘، کھوسہ صاحب آپ خاطر جمع رکھیں جو بحث عدالت میں ہو رہی ہے یہ کیس سے ہٹ کر ہے۔‘ دوران سماعت چیف جسٹس پاکستان نے نگراں حکومت کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ’انڈیا میں ایک شماریات کا ماہر ریٹائرمنٹ کے بعد بیرون ملک گیا اور تدریسی عمل جاری رکھا۔‘ ’102 سال کی عمر میں اسے نوبیل انعام ملا۔ پاکستان میں بہترین دماغ اس وقت حکومت میں ہیں۔‘ وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ ’بہترین دماغ اس وقت سپریم کورٹ میں بھی موجود ہیں جن کی ذمہ داری ملک کو آئین کے مطابق چلانا ہے۔ ملک سے زیادہ کسی چیز سے پیار نہیں کرتا ہوں۔‘ اس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ’ملک کے ساتھ تو سب کو ہی محبت ہے۔‘ بعدازاں سپریم کورٹ نے پانامہ جے آئی ٹی رپورٹ کا والیم 10 کھولنے سے متعلق براڈشیٹ کمپنی کی درخواست واپس لینے کی بنیاد پر نمٹا دی۔