Breaking News
Home / کالمز / نیویارک میں اذان کی گونج

نیویارک میں اذان کی گونج

(سرور منیر راؤ)

آج میرا ارادہ تھا کہ میں مہنگائی اور ڈالر کی تاریخی اڑان کا تجزیہ کروں لیکن آج صبح جب میں نے اپنا سیل فون کھولا تو واٹس ایپ پر ہمارے ایک دیرینہ دوست اور سینیئر ساتھی رضوی احمد رضوی صاحب (جو پہلے پاکستان ٹیلی ویڑن میں کنٹرولر نیوز کے عہدے پر فائض تھے۔

آج کل وہ وائس اف امریکا کی اردو سروس سے منسلک ہیں) نے چند منٹ کی ایک وڈیو شیئر کی تھی جو نیویارک کی تاریخ میں پہلی بار لاؤڈ اسپیکر پر اذان نشر ہونے سے متعلق تھی۔ اس وڈیو میں وائس آف امریکا کی خاتون رپورٹر نیویارک شہر کے گنجان آباد علاقے Flashing میں ایک مسجد کے باہر کھڑی بتا رہی تھی کہ آج جمعہ کا دن ہے ، کچھ دیر بعد نماز سے پہلے اذان دی جائے گی۔

خاتون رپورٹر نے بتایا کہ نیویارک شہر کی تاریخ میں آج کا دن اس لیے خصوصی تاریخی اہمیت کا حامل ہے کہ امریکا کی آزادی اور سپر پاور بننے کے تمام مدارج سے گزرنے کے بعد آج پہلی بار نیو یارک کے باسی اﷲ اکبر کی صدا لاؤڈاسپیکر پر سنیں گے۔یوں نیویارک پہلی امریکی ریاست جہاں ایک قانون کے تحت مسلم کمیونٹی کو اپنی مساجد میں لاؤڈا سپیکر پر اذان کی اجازت دی گئی ہے۔

قانون اور ضابطوں کے مطابق لاؤڈ اسپیکر کی آواز کو ایک خاص حد تک اونچا رکھنے کی اجازت ہے۔اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ اس سے پہلے اس سال اپریل میں امریکا کی وسطی ریاستوں میں سے ایک ریاست مینی پلس میں بھی پانچ نمازوں کی اذان لاؤڈا سپیکر پر دینے کی اجازت دی گئی۔

اذان کیا ہے ایک بلاوا ہے، آ جائو، آ جائو کہ ہم اکٹھے مل کر اﷲ کے حضور سجدے کریں۔جب مسلمان بچہ پیدا ہوتا ہے تو پہلی بار اس کے کان میں اذان دی جاتی ہے ۔

پہل پہل سیدنا بلالؓ حبشی مکان کی چھت پر چڑھ کر اذان دیا کرتے تھے۔یہی طریقہ خلفائے راشدین کے دور میں بھی رہا تاہم جب حضرت عمر بن عبد العزیزؒ گورنر مدینہ بنے اور انھوںنے مسجد نبوی کی تعمیر و توسیع کی تو مسجد کے چاروں کونوںمیں مینار تعمیر کیے ، یہ مینار اذان دینے کے لیے بھی استعمال ہوتے تھے۔مسجدنبوی کے اندر ریاض الجنۃ کے ساتھ ایک اونچا چپوترا بنا ہوا ہے وہاں سے موذن اذان دیتا ہے۔

حرمین شریفین(مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ) کے موذنوں کی خوش الحانی مثالی ہے لیکن تصور تو کیجیے جب موذن رسول ﷺ حضرت بلالؓ اذان دیا کرتے تھے تو ان کی ادائیگی کس قدر پر اثر ہو گی۔ حضرت بلال ؓ ایک غلام تھے۔ انھوں نے جب اسلام قبول کیا تو ایک غلام ہونے کے ناطے انھیں کفار مکہ کے شدید غم و غصہ اور ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑا۔

آپ کوشدید دھوپ میں تپتی ریت پر لٹا کر سینے پر پتھر رکھ کر گھسیٹا جاتا اور کہا جاتا کہ محمد ﷺ کو چھوڑ دو۔ آپ کی کمر جل جاتی۔سانس اکھڑجاتا لیکن زبان پر احد‘احدکی صدارہتی ۔ جب نیم بے ہوش ہو جاتے تو کچھ دیر کا وقفہ دیا جاتا ۔ جیسے ہی ہوش میں آتے پھر وہی ظلم دوبارہ شروع ہو جاتا۔حضرت بلالؓ نے کفار مکہ کی جانب سے دی جانے والی اذیتوں اور تمام ظلم و ستم کوثابت قدمی سے سہا۔

حضور پاک کے حکم پر حضرت ابو بکر صدیقؓ نے انھیں آزاد کرایا۔ حضرت بلال حبشیؓ کو رسول پاک ﷺ کی خصوصی قربت اورشفقت نصیب ہوئی۔آپ کو موذن رسولﷺ کا مرتبہ بھی ملا۔

حضرت بلالؓ رسول پاک کی رحلت کے بعد مدینہ منورہ سے شام چلے گئے تھے۔ ایک رات انھیں رسول اللہﷺ کی بشارت ہوئی ۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا بلال یہ کیا بے رخی ہے؟ ہماری زیارت کو نہیں آؤ گے؟ اس خواب کا دیکھنا تھا کہ حضرت بلالؓ ماہی بے آب کی طرح بے چین ہو گئے اور جلد ہی مدینہ کے لیے عازم سفر ہوئے، وہ اپنے آقا و مولا ﷺ کی قبر اطہرپر حاضر ہوئے اور اس سے لپٹ گئے ۔آنسوئوں سے اپنی کیفیت بیان کی۔

حضرت امام حسن ؓ اور حضرت امام حسین ؓ نے اس خواہش کااظہار کیا کہ فجر کے وقت حضرت بلالؓ اذان دیں۔ آپ مسجد نبوی کی چھت پر تشریف لے گئے جو نہی انھوں نے اﷲ اکبر اﷲ اکبر کہا، ایسا لگ رہا تھا کہ گویا مدینہ طیبہ لرز اٹھا ہو۔ جب انھوں نے اشہدان محمد رسول اﷲ کہا تواہل مدینہ پر رقت طاری ہو گئی۔یہ واقعہ ابن الاثیر اور ابن العسا کر جیسے علما ء نے بیان کیا ہے۔بشکریہ ایکسپریس نیوز

نوٹ:ادارے کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Check Also

حزب اللہ کے نصراللہ اسرائیل کے خلاف کب تک اپنے آپ کو روکے رکھیں گے؟

(شہاب الدین صدیقی) غزہ پر اسرائیلی حملے کے پہلے چار ہفتوں تک سید حسن نصراللہ …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے