اسلام آباد:پاکستان میں تعینات رہنے والے امریکی سفیر رچرڈ اولسن کے حوالے سے ممتاز امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے انکشاف کیا ہے کہ اولسن مختلف تحائف وصول کرنے اور ایک پاکستانی خاتون صحافی سے قریبی تعلقات کی بنا پر وفاقی تحقیقات کی زد میں آگئے ہیں اور انہیں 6 ماہ قید ہوسکتی ہے۔ رچرڈ گوستاوے اولسن جونیئر 2016 میں 34 سالہ کرئیر کے بعد امریکی محکمہ خارجہ سے ریٹائر ہوئے تھے۔ وہ پاکستان اور متحدہ عرب امارات میں امریکی سفیر کے طور پر ہائی پروفائل پوسٹنگ کے ساتھ ساتھ عراق اور افغانستان میں خطرناک اسائنمنٹس پر بھی رہے۔ لیکن اب اولسن اپنے سفارتی کرئیر میں کئے گئے کچھ متنازع کاموں کی وجہ سے وفاقی تحقیقات کی زد میں ہیں۔
”واشنگٹن پوسٹ“ نے عدالتی دستاویزات کے حوالے سے ان کے خلاف جاری تحقیقات پر سے پردہ اٹھایا ہے، جس میں پاکستانی خاتون صحافی کے ساتھ ان کے تعلقات، ہیروں کی برآمدگی اور دیگر کئی الزامات شامل ہیں۔ امریکی اخبار کے مطابق عدالت میں پیش کیے گئے خفیہ ریکارڈ سے پتہ چلا ہے کہ دبئی کے ایک امیر کی جانب سے اولسن کی ساس کو 60 ہزار ڈالرز مالیت کے ہیرے کے زیورات تحفے میں دیے، اولس اس تحفے کی اطلاع محکمہ خارجہ کو دینے میں ناکام رہے۔ دستاویز کے مطابق امریکی محکمہ خارجہ کے انسپکٹر جنرل نے اولسن سے ہیروں کے ان زیورات کے بارے میں تفتیش کی۔ دستاویزات کے مطابق امریکی تحقیقاتی ایجنسی ”ایف بی آئی“ نے ان سے اسلام آباد میں بطور امریکی سفیر تعیناتی کے دوران ایک خاتون صحافی کے ساتھ ان کے ’غیر ازدواجی تعلقات‘ کے بارے میں بھی پوچھ گچھ کی۔ ایف بی آئی کو معلوم ہوا کہ اولسن کو ایک پاکستانی نژاد امریکی تاجر نے (جو اس وقت غیر قانونی چندہ مہم اور ٹیکس سے متعلق جرائم کیلئے جیل میں 12 سال کی سزا کاٹ رہا ہے) ٹیوشن بلز کی مد میں 25 ہزار ڈالرز دیے تھے،
جس سے سفیر کی مبینہ گرل فرینڈ نیویارک گئیں اور کولمبیا یونیورسٹی گریجویٹ اسکول آف جرنلزم میں داخلہ لیا۔ ریکارڈز سے پتہ چلتا ہے کہ اولسن کچھ ایسے رومانوی تعلقات میں ملوث تھے، جن کی وجہ سے وہ بلیک میلنگ کا شکار ہو سکتے تھے۔ اخبار نے دعویٰ کیا کہ 2012 سے 2015 تک پاکستان میں تعیناتی کے دوران اولسن نے متعدد خواتین کے ساتھ تعلق قائم کیا، حالانکہ وہ ایک امریکی سفارت کار سے شادی کرچکے تھے، جو اُس وقت لیبیا میں سفیر کے طور پر خدمات انجام دے رہی تھیں۔ اولسن نے ایف بی آئی کو بتایا کہ انہوں نے سی آئی اے کے اسلام آباد اسٹیشن کے سربراہ کو اپنی ”ڈیٹنگ“ کی عادات کے بارے میں بتایا تھا۔ لیکن عدالتی ریکارڈ بتاتا ہے کہ انہوں نے محکمہ خارجہ کے انسداد انٹیلی جنس قوانین کے مطابق امریکی سفارتی سیکیورٹی حکام کو اپنے رابطوں کی اطلاع نہیں دی تھی۔
منگل کو واشنگٹن میں 63 سالہ اولسن کو امریکی ضلعی عدالت میں دو غلط کاموں کے گزشتہ سال کیے گئے اعتراف کے بعد سزا سنائی جائے گی۔ پہلے الزام پر اولسن نے اعتراف کیا کہ جب وہ پاکستان میں سفیر تھے تو انہیں خلیج فارس کی ایک سرمایہ کاری فرم میں ملازمت کے انٹرویو کے لیے لندن جانے کے لیے 18 ہزار ڈالرز کا فرسٹ کلاس ٹکٹ ملا تھا، جسے وہ ظاہر کرنے میں ناکام رہے۔
دوسرے الزام میں انہوں نے تسلیم کیا کہ انہوں نے 2017 میں قطری حکومت کی جانب سے امریکی حکام کے خلاف غیر قانونی طور پر لابنگ کی، اور ایک وفاقی ”کولنگ آف“ قانون کی خلاف ورزی کی جس کے تحت انہیں محکمہ خارجہ سے ریٹائرمنٹ کے بعد ایک سال تک ایسا کرنے سے منع کیا گیا تھا۔ ان پر ہیروں یا ان کی گرل فرینڈ کی ٹیوشن فیس سے متعلق الزام نہیں لگایا گیا، لیکن محکمہ انصاف نے ان کی سزا کے سلسلے میں دلیل دی ہے کہ یہ اقساط غیر اخلاقی رویے کا نمونہ ہیں۔ عدالتی دستاویزات میں، استغاثہ نے امیر کے زیورات کو ’ایک بے حد اور واضح طور پر نامناسب تحفہ‘ قرار دیا اور اولسن پر احتساب سے بچنے کے لیے جھوٹ بولنے کا الزام لگایا۔
ان الزامات کے تحت اولسن کو چھ ماہ تک قید ہو سکتی ہے۔ اولسن کے جس پاکستانی نوجوان خاتون صحافی سے تعلق کی چھان بین کی جا رہی ہے وہ مونا حبیب ہیں جو 2019 مین اولسن سے شادی کر چکی ہیں۔ لیکن تحقیقات کا مرکز اولسن کی پاکستان میں تعیناتی کے برس ہیں جب اولسن کی بیوی ڈیبورا تھی اور وہ مونا سے قریب ہوئے۔ امریکی عدالتی ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ اولسن اور مونا کا تعلق دو سال تک رہا، لیکن 2014 کے آخر میں دونوں کے درمیان تعلق ٹوٹ گیا، کیونکہ پاکستانی نژاد برطانوی شہری مونا حبیب کو پتہ چل گیا کہ امریکی سفیر ان کے اور اپنی اہلیہ کے ساتھ دھوکہ دہی کر رہے ہیں۔
لیکن انہوں نے چند ماہ بعد دوبارہ رابطہ شروع کیا۔ واشنگٹن پوسٹ نے دعویٰ کیا کہ مونا حبیب کو 2015 میں کولمبیا یونیورسٹی کے گریجویٹ اسکول آف جرنلزم میں داخلہ دیا گیا تھا، لیکن وہ اس کے لیے درکار 93 ہزار ڈالرز برداشت نہیں کر سکتی تھیں۔ عدالتی ریکارڈ کے مطابق اولسن نے پاکستان، چین اور مشرق وسطیٰ میں اعلیٰ سطحی کاروباری اور سیاسی رابطے رکھنے والے پاکستانی نژاد امریکی ڈیل میکر عماد زبیری سے مونا کا تعارف کروایا۔ ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ عماد زبیری نے مونا حبیب کے بارے میں پہلے کبھی نہیں سنا تھا،
لیکن کچھ ہی دنوں میں انہوں نے مونا کو تعلیمی اخراجات اخراجات پورے کرنے کے لیے 25 ہزار ڈالرز دینے اور 50 ہزار ڈالرز قرض کا بندوبست کرنے کی پیشکش کی۔ ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ عماد زبیری نے کولمبیا یونیورسٹی کو 20 ہزار ڈالرز اور مونا حبیب کو 5 ہزار ڈالرز کا چیک بھیجا لیکن قرض دینے کا وعدہ پورا نہیں کیا۔ عماد زبیری کو 2021 میں ایک الگ کیس میں 12 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی، جب انہوں نے ٹیکس چوری، چندہ جمع کرنے کی غیرقانونی مہم اور دیگر الزامات کا اعتراف کیا تھا۔
اس وقت خبریں آئی تھیں کہ عماد زبیری امریکی انٹیلیجنس کے لیے کام کر رہے تھے۔ عدالتی فائلنگ میں اولسن کے وکلاء نے کہا کہ سابق امریکی سفیر نے ’صرف ایک تعارف کروایا، جو ایک سفارت کار کے لیے ایک بہت عام عمل ہے‘ اور یہ کہ تعلیمی اخراجات کی ادائیگی کوئی غلط بات نہیں تھی کیونکہ وہ اس وقت وہ مونا حبیب سے کسی رشتے میں نہیں تھے۔ لیکن عدالت میں جمع کرائی گئی ای میلز سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی سفیر اور صحافی اس وقت بھی ایک دوسرے کے لیے جذبات رکھتے تھے۔ مونا اپنے خلاف الزامات کو مسترد کرتی ہیں۔ وہ 2019 مین اولسن سے شادی کے بعد نیو میکسیکو میں مقیم ہیں۔ ڈیبورا اور اولسن کی طلاق 2018 میں ہوئی۔
اولسن کے خلاف دوسرا بڑا معاملہ ہیروں کا ہے۔ 2014 میں کسی نے محکمہ خارجہ کے انسپکٹر جنرل کو اطلاع دی کہ 11 سال پہلے جب اولسن دبئی میں امریکی قونصل خانے کے سربراہ کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے تو خلیج فارس کی ریاست کے ایک امیر نے ان کے دفتر میں ایک مخملی ڈبہ پہنچایا، اس کے اندر سفید سونے میں جڑے چار ہیرے رکھے گئے تھے اور ساتھ ہی ایک لاکٹ، ایک انگوٹھی اور بالیوں کا ایک سیٹ تھا،
جس کی وفاقی حکام نے بعد میں عدالتی دستاویزات کے مطابق قیمت60 ہزار ڈالرز بتائی۔ دستاویز میں امیر کا نام نہیں لیا گیا، تاہم دبئی میں 2003 سے اب تک دو مختلف امیر رہ چکے ہیں۔ اُس وقت نافذ العمل غیر ملکی تحائف اور سجاوٹ ایکٹ کے معیارات کے تحت، امریکی حکام کو 285 ڈالرز سے زیادہ مالیت کے تحائف کی اطلاع دینی ہوتی تھی، اور وہ انہیں اس وقت تک نہیں رکھ سکتے جب تک کہ وہ وفاقی حکومت کو منصفانہ قیمت کی ادائیگی نہ کر دیں۔ اولسن نے یہ بھی نہیں کیا۔ انہوں نے محکمہ خارجہ کے تفتیش کاروں کو بتایا کہ امیر نے ہیرے انہیں نہیں بلکہ ان کی ساس کو دیے تھے،
جو دبئی میں ان کے ساتھ رہ رہی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ امیر اولسن کے دو بچوں کی دیکھ بھال میں مدد کے لیے دبئی آنے پر ان کی ساس کا شکریہ ادا کرنا چاہتے تھے۔ اولسن کی اُس وقت کی اہلیہ ڈیبورا جونز اُس وقت واشنگٹن میں اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ایک سینئر اہلکار کے طور پر مقیم تھیں، اور جزیرہ نما عرب کے دفتری امور کی نگرانی کرتی تھیں۔ اولسن کے علاوہ ڈیبورا کی خلاف بھی ان پیروں پر تحقیقات ہوئیں اور ان سے وہ ہیرے واپس مانگے گئے تاہم دونوں نے حکام کو بتایا کہ ڈیبورا کی والدہ وہ ہیرے واپس کرنے کو تیار نہیں ہوئیں اور ان کے مرنے کے بعد ہیروں کا کچھ پتہ نہیں۔