(تحریر: سید رضا میر طاہر)
ایران اور امریکہ کے درمیان پیر کے روز قیدیوں کے کامیاب تبادلے کے بعد پانچ ایرانی شہریوں کو رہا کر دیا گیا۔ ان پر امریکی عدالتی نظام نے معمول کی کاروباری سرگرمیوں کی وجہ سے غیر قانونی طور پر مقدمہ چلایا تھا۔ دوسری طرف تقریباً 6 ارب ڈالر کے ایرانی اثاثے جو کہ امریکہ نے غیر قانونی طور پر روک رکھے تھے، ان کو جنوبی کوریا سے قطر منتقل کر دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ایران اور امریکہ کے درمیان معاہدے کے فریم ورک کے اندر، جو کہ بالواسطہ مذاکرات کا نتیجہ ہے، دوہری شہریت کے حامل 5 ایرانی نژاد امریکیوں کو رہا کر دیا گیا ہے۔ یہ افراد ایران میں جاسوسی اور سکیورٹی وجوہات کی بناء پر قید تھے۔ اس تبادلے کے نفاذ کے بعد اعلیٰ امریکی حکام نے ایران مخالف موقف اختیار کیا اور ایران پر جھوٹے الزامات لگائے۔ جو بائیڈن سمیت دیگر امریکی حکام نے ایران میں امریکی قیدیوں کی رہائی کی تصدیق کرتے ہوئے سابق ایرانی صدر محمود احمدی نژاد اور اسلامی جمہوریہ کی وزارت اطلاعات کے خلاف پابندیوں کا اعلان کیا ہے۔
جو بائیڈن سمیت دیگر امریکی حکام نے امریکی شہریوں سے کہا کہ وہ ایران کا سفر کرنے سے گریز کریں۔ امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن نے امریکیوں کو ایران کا سفر نہ کرنے پر زور دیتے ہوئے الزام لگایا ہے کہ امریکی شہریوں کو سیاسی اور اقتصادی اہداف کے مطابق اسلامی جمہوریہ ایران میں یرغمال بنایا جاسکتا ہے۔اہم نکتہ یہ ہے کہ امریکی حکام کی طرف سے پیدا شدہ ماحول، تنازعات اور ایران کا سفر نہ کرنے کے حوالے سے سخت امریکی انتباہات کے باوجود دوہری شہریت کے حامل امریکی ایک بہت بڑی تعداد میں اپنے وطن کا دورہ کرتے ہیں اور اپنے رشتہ دار وں سے ملنے کے لئے بغیر کسی رکاوٹ یا پابندی کے امریکہ سے ایران آتے جاتے رہتے ہیں اور اس کا بائیڈن کے حکومتی عہدیداروں کے ایران مخالف دعوؤں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بہت سے امریکی ثقافتی، تاریخی اور قدرتی مقامات کی سیاحت کے لئے ایران آتے ہیں اور خاص طور پر ایران کی مہمان نوازی اور گرمجوشی کی تعریف کرتے ہیں۔
ایران اور امریکہ کے درمیان بالواسطہ معاہدے کے فریم ورک میں امریکی حکام کی طرف سے اٹھائے گئے زیادہ تر اعتراض اندرونی تنقید کا جواب دینے کے لئے ہیں۔ اس حوالے سے ریپبلکنز کی جانب سے زیادہ شور شرابہ کیا جا رہا ہے۔ ایک اور اہم مسئلہ یہ ہے کہ جنوبی کوریا سے جاری کردہ ایرانی اثاثوں کو کیسے خرچ کیا جائے، جو کہ اب قطری بینکوں میں منتقل ہوچکے ہیں۔ امریکی حکام مسلسل ان مالیاتی ذرائع کو کنٹرول کرنے، ان کی نگرانی کرنے اور انہیں دوبارہ بلاک کرنے کے امکان کی بات کر رہے ہیں۔ امریکی نیشنل سکیورٹی کونسل کے اسٹریٹجک کوآرڈینیٹر جان کربی نے دعویٰ کیا ہے کہ اگر ایران نے جاری کردہ اثاثوں کو غیر انسان دوستانہ مقاصد کے لیے استعمال کیا تو امریکا ایرانی حکومت کو رقوم کی منتقلی کا سلسلہ روک سکتا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ اس طرح کے مؤقف کا زیادہ تر استعمال مقامی افراد کے لئے ہوتا ہے۔ بائیڈن حکومت کے عہدیداروں نے ایران اور امریکہ کے درمیان بالواسطہ معاہدے پر ہونے والی تنقیدوں کا جواب دینے کے لیے یہ سب کچھ کیا جا رہا ہے۔اعلیٰ ایرانی حکام نے ان دعوؤں کو کھلے عام رد کیا ہے اور اس بات پر زور دیا ہے کہ ایرانی حکومت ان اثاثوں کو جہاں مناسب سمجھے گی، استعمال کرے گی۔ دراین اثنا اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی نے کہا ہے کہ حکومت خود فیصلہ کرے گی کہ ان چھ ارب ڈالر کو کس طرح خرچ کیا جائے اور جہاں ایران کو ضرورت ہوگی، یہ رقم وہاں خرچ کی جائے گی۔ آخری نکتہ یہ ہے کہ ایران کے ساتھ حالیہ معاہدے کے باوجود بائیڈن انتظامیہ نے ایران کے خلاف دشمنی کا ڈھول پیٹنا جاری رکھا ہوا ہے اور ایک بار پھر ایران کے خلاف اپنے معاندانہ موقف کا اعادہ کرتے ہوئے تہران کا مقابلہ کرنے پر زور دیا ہے۔
امریکی قومی سلامتی کونسل کے اسٹریٹجک کوآرڈینیٹر جان کربی نے کہا ہے کہ ایران کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کا مطلب ایران کے بارے میں واشنگٹن کی پالیسیوں میں تبدیلی نہیں ہے اور اسلامی جمہوریہ کے ساتھ محاذ آرائی کی پالیسی خطے اور دنیا میں جاری ہے۔ اپنے قیدیوں کی رہائی اور مسدود اثاثوں کے حوالے سے امریکہ کے ساتھ حالیہ بالواسطہ معاہدے میں تہران کا اپنے موقف پر قائم رہنا امریکہ کے خلاف ایک اور فتح ہے۔ تہران کی جانب سے دوہری شہریت والے قیدیوں کی رہائی کے واشنگٹن کے مطالبے کو پورا کرنے کا انحصار اپنے اثاثوں کی مکمل منتقلی پر منحصر تھا۔ البتہ واشنگٹن کے وعدوں کی بار بار خلاف ورزیوں کی وجہ سے امریکہ پر عدم اعتماد اب زبان زد خاص و عام ہوچکا ہے۔بشکریہ اسلام ٹائمز
نوٹ:ادارے کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔