اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی درخواست منظور کرتے ہوئے ٹرائل کورٹ کو 9 مئی کے واقعات سمیت دیگر 9 مقدمات میں ضمانت کی درخواستوں پر دوبارہ سماعت کا حکم دے دیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری پر مشتمل دو رکنی بینچ نے چیئرمین پی ٹی آئی کی 9 مئی کے واقعات سے متعلق 9 مقدمات میں ٹرائل کورٹ کی جانب سے ضمانت کی درخواستیں خارج کرنے کے خلاف درخواست پر سماعت کی اور محفوظ فیصلہ سنا دیا۔ عدالت نے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست منظور کی اور ٹرائل کورٹ کا عدم پیروی پر درخواستیں خارج کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری نے فیصلے میں کہا کہ ٹرائل کورٹ 9 مقدمات میں ضمانت کی درخواستیں دوبارہ سنے۔
ان درخواستوں میں سے 6 سیشن عدالت اور 3 درخواستیں انسداد دہشت گردی عدالت نے خارج کی تھیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ ضمانت کی درخواستیں خارج کرنے کے ٹرائل عدالتوں کے فیصلے کالعدم قرار دیے جاتے ہیں اور خارج کی گئیں ضمانت کی درخواستیں ٹرائل کورٹ میں زیر التوا تصور کی جائیں۔ فیصلے میں کہا گیا کہ ٹرائل کورٹ کا عدم پیروی پر درخواستیں خارج کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔ ٹرائل کورٹ میں ضمانت کے لیے درج درخواستوں میں توشہ خانہ کیس، دفعہ 144 کی خلاف ورزی کا کیس اور ایک درخواست اقدام قتل کے مقدمے سے متعلق تھی۔ یاد رہے کہ اسلام آباد کی مقامی عدالتوں نے پرتشدد مظاہروں پر چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے خلاف درج مقدمات میں ضمانت کی 9 درخواستیں مسترد کر دی تھیں۔
اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت نے ضمانت کی 3 درخواستیں اور ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج (اے ڈی ایس جے) محمد سہیل نے عمران خان کی قبل از گرفتاری ضمانت کی 6 درخواستیں مسترد کر دی تھیں جبکہ چیئرمین پی ٹی آئی توشہ خانہ کیس میں سزا کے بعد حراست میں لیے جانے کی وجہ سے عدالت میں سماعت کے دوران غیر حاضر نہیں تھے۔ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج محمد سہیل نے توشہ خانہ تحائف کی جعلی رسید سے متعلق مقدمے میں عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی عبوری ضمانت میں توسیع کردی تھی۔
چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے ان کے خلاف تھانہ کھنہ اور بارہ کہو تھانے میں درج مقدمات میں انسداد دہشت گردی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین سے ضمانت کی درخواست کی تھی۔ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نے کراچی کمپنی، رمنا، کوہسار، ترنول اور سیکریٹریٹ تھانوں میں درج ایف آئی آرز میں ضمانت کی درخواستوں پر سماعت کی تھی۔ استغاثہ نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا تھا کہ عمران خان جیل میں ہیں اس لیے وہ ضمانت قبل از گرفتاری کے حق دار نہیں ہیں اور تفتیشی افسران نے عدالت کو بتایا تھا کہ عمران خان اپنے خلاف درج مقدمات میں شامل تفتیش نہیں ہوئے۔ چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے مؤقف اپنایا تھا کہ سابق وزیراعظم کو ان کے خلاف درج تمام 6 مقدمات میں ایک جیسے الزامات کا سامنا ہے لیکن پولیس ان معاملات میں تحقیقات کے لیے اقدامات نہیں کر رہی ہے۔