(فرینک گارڈنر)
سنیچر کی صبح فلسطین کے عسکریت پسند گروہ حماس کی جانب سے جب اسرائیل پر ’زمینی، فضائی اور بحری‘ ذرائع سے حملے کیے گئے تو چند ہی گھنٹوں میں ان حملوں کو اسرائیلی میڈیا کی جانب سے ’انٹیلیجنس کی ناکامی‘ قرار دیا جانے لگا تھا۔
حماس کی جانب سے کیے جانے والے ان حملوں میں اب تک 250 سے زیادہ اسرائیلی ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ اس کے ردِ عمل میں اسرائیل کے غزہ شہر پر کیے جانے والے فضائی حملوں میں اب تک 230 سے زیادہ فلسطینی مارے گئے ہیں۔
دونوں اطراف ہزاروں افراد اب بھی زخمی ہیں اور ہلاکتوں کی تعداد میں ہر گزرتے گھنٹے کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔ حماس کی جانب سے اسرائیلی شہریوں اور فوجیوں کو بھی یرغمال بنایا گیا ہے جس نے اسرائیل کے ایک انتہائی مشکل صورتحال پیدا کر دی ہے۔
’ہمیں نہیں معلوم کہ یہ سب کیسے ہو گیا‘، یہ وہ جواب ہے جو اسرائیلی حکام مجھے آج کیے جانے والے اس سوال کے جواب میں دے رہے ہیں کہ بہترین وسائل کی موجودگی کے باوجود یہ کیسے ممکن ہے کہ اسرائیلی انٹیلیجنس کو اس حملے کی خبر تک نہ ہو سکی۔
سنیچر کے روز درجنوں مسلح فلسطینی اسرائیل اور غزہ کی پٹی کے درمیان سخت سکیورٹی والی سرحد عبور کرنے میں کامیاب ہوئے جبکہ اسی دوران غزہ سے اسرائیل پر مبینہ طور پر ہزاروں راکٹ داغے گئے۔
اسرائیل کی داخلی انٹیلیجنس ایجنسی شاباک، اس کی بیرونی خفیہ ایجنسی موساد اور اسرائیل ڈیفنس فورسز کے تمام وسائل کے باوجود یہ حیران کن امر ہے کہ کسی کو بھی اس حملے کی توقع تک نہ تھی۔
اور اگر تھی بھی تو وہ اس کا مؤثر انداز میں روکنے میں ناکام رہے۔ اسرائیل کے پاس پورے مشرقِ وسطیٰ کی سب سے زیادہ وسائل والی اور وسیع انٹیلیجنس سروس ہے۔
ان کے مخبر اور ایجنٹ فلسطینی عسکریت پسند گروہوں کےعلاوہ لبنان، شام اور دیگر ممالک میں بھی موجود ہیں۔ ماضی میں ان کی جانب سے عسکریت پسند کمانڈرز کو انتہائی مہارت سے قتل کیا ہے، اس دوران انھیں ان کی نقل و حرکت کے بارے میں سب کچھ معلوم ہوتا تھا۔
کبھی ایسی کارروائیوں کے لیے اسرائیلی خفیہ ایجنسی کے ایجنٹس نے مطلوبہ شخص کی گاڑی پر جی پی ایس ٹریکرز لگائے اور پھر ڈرون حملے کی مدد سے ہدف کو نشانہ بنایا گیا۔ ماضی میں اس خفیہ ایجنسی کی جانب سے موبائل فونز میں دھماکوں کا بھی سہارا لیا جا چکا ہے۔
غزہ اور اسرائیل کے درمیان سرحدی باڑ کے ساتھ ساتھ یہاں کیمرے اور گراؤنڈ موشن سینسر (یعنی کسی بھی قسم کی حرکت کی صورت میں الارم بجانے والے سینسرز) موجود ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں اسرائیلی فوج باقاعدگی سے گشت بھی کرتی ہے۔
خاردار تاروں کی باڑ کو کسی بھی قسم کی دراندازی کو روکنے کے لیے ایک ’سمارٹ بیریئر‘ سمجھا جاتا رہا ہے، تاہم اس حملے کے دوران یہ رکاوٹ بھی کارگر ثابت نہ ہو سکی۔
حماس کے عسکریت پسند اسی راستے سے نہ صرف اندر داخل ہوئے بلکہ انھوں نے خاردار تاروں کو کاٹا اور اس راستے کے ذریعے یا پیراگلائڈرز اور سمندر کے ذریعے اسرائیل میں داخل ہو گئے۔
اس طرح کا پیچید اور مربوط حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کرنا جس میں پہلے راکٹس کو ذخیرہ کیا گیا اور پھر ہزاروں راکٹ فائر کیے گئے، اور یہ سب اسرائیلی فورسز کی ناک کے نیچے سے کر گزرنا، اس سے حماس کی لاجواب آپریشنل سکیورٹی کے لیول کا اندازہ ہوتا ہے۔
اس لیے یہ بالکل بھی حیرت کی بات نہیں ہے کہ اسرائیلی میڈیا اپنے ملک کی فوج اور سیاسی رہنماؤں سے یہ سوال پوچھ رہا ہے کہ یہ سب کیسے ممکن ہو سکا۔ اور وہ بھی 50 سال قبل کیے گئے ایسے ہی ایک سرپرائز حملے کے بعد جو یومِ کپور کے نام سے جانا جاتا ہے۔
اسرائیلی حکام نے مجھے بتایا ہے کہ اس بارے میں وسیع پیمانے پر تحقیقات کا فیصلہ کیا گیا ہے اور تفتیش کا آغاز ہو گیا ہے اور ان کے مطابق یہ ’کئی سالوں تک جاری رہ سکتا ہے۔‘
تاہم اس وقت اسرائیل کے سامنے اس سے بھی زیادہ مشکل فیصلے کرنے کا وقت ہے۔ سب سے پہلے تو اسے اپنی جنوبی سرحدوں میں دراندازی کو روکنے کے بارے میں سوچنا ہے اور حماس کے عسکریت پسندوں سے اسرائیلی علاقوں پر حاصل کیا گیا کنٹرول واپس لینا ہے۔
یہ اسرائیل کے لیے ایک انتہائی مشکل ٹیکٹیکل صورتحال ہے۔ اسرائیلی یرغمالیوں کی غزہ اسرائیل سرحد کے قریب کم از کم دو جگہوں پر موجودگی اسر ائیل کو ایک ایسا مشکل صورتحال میں ڈال دیتا ہے جس میں کوئی بھی آپشن آسان نہیں ہے۔
سپیشل فورسز کی جانب سے ریسکیو آپریشن کرنا ایک آپشن ضرور ہے اور اسرائیلی ڈیفنس فورس (آئی ڈی ایف) کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ ان کے فوجی ایک سے زیادہ علاقوں میں تعینات بھی کیے جا چکے ہیں۔یہاں خطرہ یہ ہے کہ یرغمال بنانے والے ریسکیو ٹیموں کے پہنچنے سے پہلے ہی کہیں یرغمالیوں کو قتل نہ کر دیں۔
یہاں مذاکرات ایک اور آپشن ہے لیکن ایسا اس کشیدہ ماحول میں ہونے کے امکانات بہت کم ہیں جب دونوں ملکوں میں ہر گزرتے گھنٹے کے ساتھ ہلاکتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔
یاد رہے کہ جب سنہ 2006 میں سرحد پار سے کی جانے والی کارروائی کے باعث اسرائیلی فوجی جیلاد شالت کو فلسطینی عسکریت پسندوں کی جانب سے اغوا کیا گیا تھا تو انھیں رہا کروانے کے لیے پانچ برس تک مذاکرات کیے گئے تھے۔
اسرائیل میں جہاں سے راکٹ فائر کیے گیے تھے، انھیں وہ لانچ سائٹس ختم کرنے کی کوشش کرنی ہو گی اور یہ ایک مشکل عمل اس لیے بھی ہے کیونکہ یہ راکٹ کہیں سے بھی صرف کچھ ہی دیر میں لانچ کیے جا سکتے ہیں۔
اور شاید اسرائیل کی سب سے بڑی پریشانی یہ ہے کہ وہ ان لوگوں کو کیسے روکے جو حماس کی جانب سے ہتھیار اٹھانے اور عسکریت پسند تنظیم کا حصہ بننے کی پیشکش کو قبول کر رہے ہیں۔ یہ بھی کہ وہ مغربی کنارے میں پھیلنے والی شورش پر کیسے قابو پائے اور لبنان کے ساتھ شمالی سرحد پر حذب اللہ جنگجوؤں کے خلاف کیسے کارروائی کرے؟بشکریہ بی بی سی
نوٹ:ادارے کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔