Breaking News
Home / کالمز / غزہ والوں کی ہمت اور باقیوں کی کمزوری

غزہ والوں کی ہمت اور باقیوں کی کمزوری

(تحریر : ایاز امیر)

ہم مسلمانوں کا کیا حال ہے‘ آج کی دنیا میں ہماری مجموعی حالت محتاجوں کی سی ہے۔ جن مسلمان ممالک کے پاس تیل کے ذخائر کی وجہ سے اَن گنت دولت ہے‘ ان کی حیثیت بھی کاسہ لیسوں کی سی ہے۔ اسلحے کے ذخائر کہیں سے لیتے ہیں‘ اپنے دفاع کے لیے بھی کہیں اور ہی دیکھتے ہیں۔ جن کے پاس تیل کی دولت نہیں ہے ان کی حیثیت پھر ہمارے جیسی ہے‘ کشکول اٹھائے پھرتے ہیں اور باہر کی امداد سے ہی گزارا چلتا ہے۔ اس معمول سے ہٹ کر عالمِ اسلام میں صرف دو ہی قوتیں ہیں‘ حزب اللہ اور حماس۔ اس ضمن میں ایران کا ذکر بھی ضروری ہے کیونکہ ان دونوں قوتوں کے پیچھے ایران کھڑا ہے۔

حزب اللہ اسرائیل کا مقابلہ کرتی آ رہی ہے اور 2006ء میں تو اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان باقاعدہ جنگ چھڑ گئی تھی جو تقریباً ایک ماہ تک جاری رہی۔ اس جنگ میں حزب اللہ نے اسرائیل کا ڈٹ کر مقابلہ کیا حتیٰ کہ دونوں کا حساب تقریباً برابر رہا۔ حزب اللہ کے لیے یہ بہت بڑی کامیابی تھی کیونکہ کہاں اسرائیل کی طاقت اور کہاں حزب اللہ کی حیثیت جوکہ ایک تحریک ہی ہے۔ مضبوط تحریک ہے لیکن حزب اللہ کسی ریاست کا نام تو نہیں۔ پھر بھی حزب اللہ نے کامیابی اور دلیری سے اسرائیل کا راستہ روکا اور آج تک اسرائیل سے برسرِپیکار ہے۔ جہاں تک حماس کا تعلق ہے وہ تو ہم نے دیکھ ہی لیا ہے کہ اس نے اسرائیلی جبر و استبداد کے خلاف کس انداز سے مقابلہ کیا۔ جتنا بڑا آپریشن حماس نے کیا‘ کہا جاتا تھا کہ حماس ایسا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی لیکن حماس نے یہ انہونی کرکے دکھائی اور اسرائیل اور پوری دنیا حیران ہو کر رہ گئی۔ اس حملے کے بعد جو ہو رہا ہے‘ وہ مناظر دنیا دیکھ رہی ہے۔ اسرائیل بزدلوں کا کھیل کھیل رہا ہے۔ اس کے پاس فضائی طاقت ہے اور اس کے استعمال سے غزہ کی پٹی کی تباہی عمل میں لائی جا رہی ہے۔

1973ء کی عرب‘ اسرائیل جنگ میں شاہ فیصل نے تیل کا ہتھیار استعمال کیا تھا اور تیل کی ترسیل بند کر دی تھی۔ وہ زمانہ گزرگیا اور اتنی ہمت اب عالمِ اسلام میں کہاں۔ اس جنگ میں پاکستان نے بھی اپنا ایک چھوٹا سا رول ادا کیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو وزیراعظم تھے اور اس جنگ میں پاکستان ایئر فورس کے کچھ پائلٹوں نے شام کے جنگی جہاز چلائے تھے۔ پر تب بھٹو پاکستان کا سربراہ تھا اور وہ ایسا کر سکتا تھا۔ ہمارے لیے بھی زمانہ بدل چکا ہے اور اب شاید ہم زبانی جمع خرچ سے ہی گزارا کر سکتے ہیں۔ یہ پائلٹوں کا بھیجنا‘ یہی وجہ تھی کہ تب کے شام کے لیڈر حافظ الاسد بھٹو کی ذاتی طور پر اور ان کی برطرفی کے بعد ان کی فیملی کی قدر کرتے تھے۔

آج کے زمانے میں بہت سے مسلم ممالک تیل کے ذخائر کی بدولت بہت مالدار ہو چکے ہیں‘ ان کی حیثیت بڑھ چکی ہے‘ ان کی فوجوں کے پاس کسی ماڈرن اسلحے کی کمی نہیں لیکن مجموعی حالت مسلم ملکوں کی اچھی نہیں۔ ایک تو یہ تنازع سعودی عرب اور ایران کا چل رہا ہے۔ کوششیں کی گئی ہیں کہ اس تنازعے کی شدت کم ہو اور حال ہی میں کچھ سفارتی پیش قدمیاں بھی ہوئی ہیں لیکن بنیادی طور پر دونوں ممالک ایک دوسرے سے شاکی ہیں۔ یہ جو اسرائیل اور سعودی عرب میں مفاہمت کی کوششیں کی جا رہی تھیں‘ اس تناظر میں سعودی عرب کی خواہش تھی کہ امریکہ اسے دفاعی ضمانتیں مہیا کرے۔ کس کے خلاف دفاعی ضمانتیں؟ کون سا خطرہ ہے جس کے پیش نظر سعودی عرب ایسی ضمانتوں کی ڈیمانڈ کر رہا تھا؟ سعودی عرب کو اور تو کہیں سے خطرہ ہے نہیں‘ بس اس کا خیال ہے کہ اسے خطرہ ایران سے ہو سکتا ہے۔ دیکھا جائے تو یہ کیسی عجیب صورتحال ہے کہ سعودی عرب کو کسی چیز کی کمی نہیں‘ نہ وسائل کی نہ اسلحے کی لیکن پھر بھی اپنی حفاظت کے حوالے سے اسے دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کہیں یہ نہ ہو جائے‘ کہیں وہ نہ ہو جائے۔

کئی اور عرب ممالک بھی ہیں جنہوں نے امریکی مداخلت یا پریشر کے تحت اسرائیل سے تعلقات نارملائز کر لیے ہیں۔ پر ان ممالک سے پوچھا جائے کہ انہیں فلسطینیوں کی حالت نظر نہیں آتی؟ اس کا یہ مطلب نہیں کہ فلسطینیوں کی خاطر وہ اعلانِ جنگ کر دیں لیکن پھر بھی کچھ تو دیکھا جانا چاہیے کہ فلسطینیوں پر کیسے کیسے ظلم ڈھائے جاتے رہے ہیں اور مغربی دنیا جو اپنے آپ کو جمہوریت اور انسانی اقدار کی علمبردار سمجھتی ہے‘ مشرقِ وسطیٰ کے حوالے سے کیسے دہرے معیار کی مرتکب ہوتی رہی ہے۔ جمہوریت اور بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے مغربی دنیا‘ دنیا بھرکے بھاشن دیتی رہے گی لیکن فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی بربریت مغربی دنیا کو نظر نہیں آتی۔ اور اب بھی دیکھ لیں‘ حماس کے خلاف یکطرفہ تنقید ہو رہی ہے لیکن اس بات کو یکسر نظرانداز کیا جا رہا ہے کہ آخرکار وہ کون سے عوامل ہیں جن کی بنا پر حماس اسرائیل پر حملہ کرنے پر مجبور ہوئی۔

پر ایسی باتوں کا کیا رونا‘ تاریخ میں طاقت کی زبان ہی چلتی رہی ہے البتہ حماس اور حزب اللہ کو یہ اعزاز جاتا ہے کہ طاقت کی زبان کا مقابلہ وہ طاقت سے کر رہی ہیں۔ ایسی ہمت باقی عالمِ اسلام میں آپ کو نظر نہیں آئے گی کیونکہ بیشتر ممالک مختلف مصلحتوں کا شکار ہیں۔ ان میں سے بیشتر نے بہت پہلے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ اسرائیل سے برسر پیکار ہونے کا مطلب امریکہ سے بگاڑ پیدا کرنا ہے اور ایسا کرنے کے لیے یہ ممالک تیار نہیں۔ پھر شکر ہی ادا کرنا چاہیے کہ اس مرجھائی ہوئی صورتحال میں کسی میں تو ہمت ہے حق اور سچ کے لیے ڈٹ جانے کی۔ حزب اللہ نے اپنے آپ کو ایسا بنا دیا ہے کہ اسرائیل اس سے پنگا لینے سے خائف رہتا ہے۔ امریکہ کو ایک لمحے کے لیے بھی حزب اللہ نہیں بھاتی لیکن حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ اور ساری تنظیم جرأت اور استقامت سے اپنی راہ پر چلتے جا رہے ہیں۔ ایران کو بھی داد دینا پڑتی ہے کہ مشکلات کے باوجود وہ امریکہ اور اسرائیل کے خلاف ڈٹا ہوا ہے۔ ایرانی انقلاب کے بہت سے پہلوؤں سے اختلاف کی گنجائش موجود ہے لیکن ایرانی انقلاب کی ہمت و استقامت کو سلام کہنا پڑتا ہے۔

دیکھیے مغربی قوتیں اپنے مفادات کی خاطر کتنی یکسو نظر آتی ہیں۔ اسرائیل پر حملہ ہوتا ہے اور امریکہ اس کی مدد کو دوڑ پڑتا ہے اور جہاں امریکی لڑاکا جہاز اسرائیلی ساحل کا رُخ کرتے ہیں وہاں برطانیہ بھی اعلان کرتا ہے کہ اس کے جنگی بیڑے بھی اسی طرف جا رہے ہیں۔ ایسی یکسو کیفیت مسلمان دنیا میں دکھائی کیوں نہیں دیتی؟ آپس کے معمولی جھگڑوں سے کیونکر ہم نہیں نکل پاتے؟ اور اپنی محتاجی پر ہمیں کیوں شرم نہیں آتی؟ یہ درست ہے کہ حزب اللہ اور حماس جیسی ہمت بازار سے خریدی نہیں جا سکتی۔ لوہا بننے کے لیے آگ سے گزرنا پڑتا ہے اور حماس اور حزب اللہ آگ میں ہی کندن بنے ہیں۔ ایسی ہمت ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہوتی لیکن پھر بھی کچھ تو اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے اور کچھ تو فیصلہ کرنا چاہیے کہ جینے کا اسلوب یا ڈھنگ کیا ہونا چاہیے۔

بہرحال حماس اور حزب اللہ ہمارے لیے ایک مثال ہیں۔ دونوں تنظیمیں کمزوروں کو بتاتی ہیں کہ ایسے بھی جیا جا سکتا ہے۔ حزب اللہ کو کوئی کچل نہیں سکا‘ امریکی غصہ نہ اسرائیلی جارحیت۔ غزہ کے باشندوں پر ظلم ڈھائے جا رہے ہیں پر کیا اسرائیل سمجھتا ہے کہ اس وحشیانہ بمباری سے فلسطینیوں کا وجود ختم ہو جائے گا یا وہ گھٹنوں پر آکر امن کی بھیک مانگیں گے؟ لیکن اتنا تو ہونا چاہیے کہ جب ایسے مظالم غزہ کے باشندوں پر کیے جا رہے ہیں‘ عالمِ اسلام میں کچھ تو حرارت پیدا ہو‘ کچھ تو امریکہ کو کہہ سکیں کہ اتنے یکطرفہ تو نہ بنو۔ نام اللہ کا لینا اور تھوڑی سی ہمت بھی نہ دکھا سکنا‘ کتنے افسوس کی بات ہے۔بشکریہ دنیا نیوز

نوٹ:ادارے کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Check Also

حزب اللہ کے نصراللہ اسرائیل کے خلاف کب تک اپنے آپ کو روکے رکھیں گے؟

(شہاب الدین صدیقی) غزہ پر اسرائیلی حملے کے پہلے چار ہفتوں تک سید حسن نصراللہ …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے