پاکستان کے معروف عالم دین مولانا طارق جمیل کے بیٹے کی خودکشی کی خبر سامنے آنے کے بعد سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلز پر ایک تصویر نشر ہوئی جو لاہور کے رہائشی عاصم جمیل نامی شہری کی تھی۔ اتوار کو ان کی یہ تصویر پاکستان کے اکثر بڑے میڈیا پلیٹ فارمز نے اپنی خبر کے ساتھ شائع کی۔ پیر کو اُردو نیوز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے عاصم جمیل نے بتایا کہ اُن کی تصویر مولانا طارق جمیل کے بیٹے سے منسوب کر کے شائع کی گئی ہے۔ ’کل میں پاکستان آ رہا تھا۔ میں جیسے ہی ایئرپورٹ پر پہنچا اور موبائل آن کیا تو مولانا طارق جمیل کے بیٹے کی خودکشی کی خبر میری تصویر کے ساتھ چل رہی تھی‘۔ انہوں نے بتایا کہ اس دوران اُن کو گھر سے مسلسل کالز موصول ہو رہی تھیں۔ ’مجھے دوست احباب سمیت گھر والے بار بار پیغامات بھیج رہے تھے اور کال کر رہے تھے۔ چونکہ میرا فون بند تھا اس لیے ان سے رابطہ نہیں ہو پا رہا تھا۔ گھر والے میری تصویر دیکھ کر بہت پریشان تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’مجھے خود صدمہ لگا کہ یہ کیسے ہوا۔ میں تو زندہ ہوں اور میری تصویر شائع کر کے مرنے کی خبر چلائی جا رہی ہے۔‘ عاصم جمیل سعودی عرب میں مقیم ہیں اور ایک نجی کمپنی میں بطور سی ای او کام رہے ہیں۔ لاہور کے رہائشی عاصم جمیل پیشے کے اعتبار سے انجینئیر ہیں اور انہوں نے لاہور یونیورسٹی آف انجینیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی سے تعلیم حاصل کر رکھی ہے۔ وہ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر کافی متحرک رہتے ہیں اور اپنے کام کے حوالے سے بھی سرگرمیاں شیئر کرتے رہتے ہیں، اس لیے ان کی تصویریں اور ویڈیوز انٹرنیٹ پر موجود ہیں۔
عاصم جمیل کا کہنا تھا کہ وہ نہیں جانتے ان کی تصویر کس نے کہاں سے اٹھائی ہے۔ ’قوی امکان ہے کہ لوگوں نے عاصم جمیل کا نام سرچ کیا ہو گا جس پر میری تصویر سامنے آئی ہو گی تو انہوں نے مجھے مولانا طارق جمیل کا بیٹا سمجھا اور خبروں میں میری تصویر لگا دی۔‘ انہوں نے کہا کہ ان کے خاندان والے پریشان تھے لیکن ان کے گھر پہنچنے ہر سب کو تسلی ہو گئی۔ ’میں گھر آیا جہاں سارے میرے حوالے سے پریشان تھے۔ میری واپسی پر ان کو تسلی ہوئی۔ اس کے بعد میں نے خود اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بھی وضاحت دی تاکہ عزیز و اقارب آگاہ ہو جائیں۔‘ انہوں نے سوشل میڈیا پر جاری وضاحتی پیغام میں بتایا کہ وہ خیریت سے ہیں اور ان کی تصویر میڈیا نے مولانا طارق جمیل کے بیٹے سے غلطی سے منسوب کی ہے۔ انہوں نے درخواست کی ’میڈیا پلیٹ فارمز کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ مکمل تصدیق کے بعد ایسی خبر یا تصویر شائع کرنی چاہیے تاکہ کسی کو اس قدر پریشانیوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔‘