سپریم کورٹ آف پاکستان نے ٹرائل کورٹس کو نیب ریفرنسز پر حتمی فیصلے سے روک دیا۔ عدالتِ عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ کوئی بھی ملزم ٹرائل کورٹ سے ضمانت لینے کا بھی حق دار ہو گا، نیب ترامیم کیس پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کے تفصیلی فیصلے سے مشروط ہے۔ سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی زیرِ صدارت 5 رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی جس میں جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس اطہر من اللّٰہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی شامل تھے۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ کیا تمام نیب ترامیم کالعدم ہوئی ہیں؟ معاون وکیل سعد ہاشمی نے جواب دیا کہ پہلی اور دوسری ترامیم کی کچھ شقیں کالعدم قرار دی گئی ہیں۔
عدالت میں وکیل فاروق نائیک نے کہا کہ 25 مئی کو نیب قانون میں تیسری ترمیم بھی ہوئی، تیسری نیب ترمیم کا اثر عدالتی فیصلے سے زائل ہوگیا ہے، عدالتی فیصلے سے تیسری نیب ترمیم غیرفعال ہوچکی۔ جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ تیسری ترمیم کا جائزہ لیے بغیر پہلی دو کالعدم کیسے ہوسکتی ہیں؟چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ عدالت نے ترامیم کالعدم قرار دینی تھیں تو تینوں کرتیں، تیسری ترمیم مئی میں آئی اس کے بعد بھی 6 سماعتیں ہوئیں، تینوں نیب ترامیم کا آپس میں براہ راست تعلق ہے۔ عدالت میں اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے روسٹرم پر آکر کہا کہ وفاق نے اس کیس میں مخدوم علی خان کو وکیل کیا تھا، وہ بیرونِ ملک ہیں اور عدالت سے التواء کی درخواست کر چکے ہیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اس کیس میں تو دیگر درخواست گزار بھی ہیں۔
عدالت میں وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ کیس میں فریق بننے کی درخواست کی ہے، میرے مؤکل زوہیب احمد صدیقی نیب ترامیم کے فیصلے سے متاثرہ ہیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ نیب ترامیم کیس کا اقلیتی فیصلہ بھی آ چکا ہے، اپیل میں وفاقی حکومت نے ایک نکتہ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کا اٹھایا ہے۔ عدالت میں مخدوم علی خان کے معاون وکیل سعد ہاشمی نے پیش ہو کر کہا کہ نیب ترامیم کیس پر پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون لاگو ہوتا تھا، نیب ترامیم کیس میں بینچ ججز کی کمیٹی نے تشکیل نہیں دیا تھا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ اس نکتے کی پیروی کرنا چاہتے ہیں؟ اگر آپ کی یہ دلیل مان لی گئی تو نیب ترامیم کے خلاف درخواستیں زیرِ التواء تصور ہوں گی، زیرِ التواء درخواست پر ازسرِ نو 5 رکنی لارجر بینچ فیصلہ کرے گا۔ معاون وکیل سعد ہاشمی نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون والا نکتہ پہلے بھی اٹھایا تھا۔ عدالت میں اٹارنی جنرل نے اپیلوں پر پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون لاگو ہونے کی حمایت کر دی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ عدالت کو اس نکتے پر تکنیکی مسئلے کا بھی سامنا ہے، ابھی تک پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کا تفصیلی فیصلہ نہیں آیا، معلوم نہیں نمٹائے گئے مقدمات سے متعلق تفصیلی فیصلے میں کیا لکھا ہو گا، کیا مناسب نہیں ہو گا کہ پہلے تفصیلی فیصلے کا انتظار کر لیا جائے؟ نیب ترامیم سے کیا صرف فاروق نائیک کے مؤکل ہی متاثرہ فریق ہیں باقی کوئی نہیں؟ وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ نیب ترامیم سے بہت سے لوگ مستفید ہوئے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہ کہنا درست نہیں کہ نیب ترامیم سے کوئی مستفید ہوا، نیب ترامیم سے کوئی بری نہیں ہوا،صرف مقدمات کا فورم بدلا ہے، نیب ترامیم سے استغاثہ کے آمدن سے زائد اثاثوں کا کیس ثابت کرنے کی شق بدلی۔ عدالت میں فاروق ایچ نائیک نے نیب ترامیم کیس کا فیصلہ معطل کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ نیب ترامیم کا فیصلہ معطل کر دیں ورنہ یہ کیس تاخیر کا شکار ہوا تو احتساب عدالت سے فیصلے آ جائیں گے۔چیف جسٹس نے کہا کہ نیب ترامیم کیس کے فیصلے کو معطل نہیں کریں گے، صرف احتساب عدالتوں کو حتمی فیصلہ کرنے سے روکیں گے، نیب ترامیم کے خلاف اپیل کو پریکٹس اینڈ پروسیجر کے تفصیلی فیصلے آنے کے بعد مقرر کریں گے۔ سپریم کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تفصیلی فیصلے تک سماعت ملتوی کر دی۔