(مہناز ناظم)
علامہ اقبالؒ شاعر مشرق ہونے کے ساتھ عظیم مفکر اسلام بھی تھے۔ وہ امت مسلمہ کا گہرا درد رکھتے تھے۔ اقبال کی عالمی سیاست پر بھی گہری نظر تھی، یہی وجہ ہے کہ جنگ عظیم دوم کے بعد برطانیہ اور فرانس نے جب یہودیوں کو فلسطین میں آباد ہونے کےلیے جگہ دی تو ان کی دور رس نگاہوں نے اس سے پیدا ہونے والے فتنے اور عالمی فساد کو بھانپ لیا۔
یہودی ارض مقدس پر اپنا حق جتاتے تھے کہ فلسطین ایک عرصہ دراز ان کی حکومت میں رہا۔ وہ فلسطینیوں کے آبائی وطن پر قبضہ کرنا چاہتے تھے۔ برطانیہ اور دیگر ممالک نے انہیں آبادکاری کےلیے متبادل جگہوں کی پیشکش بھی کی مگر وہ فلسطین میں آباد ہونے پر مصر رہے، چنانچہ ایک تحریک چلائی گئی اور دنیا بھر کی یہودیوں کو فلسطین میں آباد کرنے کےلیے لانے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اس ضمن میں اقبال فرماتے ہیں کہ
ہے خاکِ فلسطین پہ یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہل عرب کا
برطانیہ نے یہودیوں کی سہولت کاری کی اور عربوں سے کیے گئے وہ تمام عہد و پیمان توڑ ڈالے اور فلسطین میں یہودیوں کو زمین دینے اور ان کی آباد کاری کا منصوبہ برطانیہ کی سرپرستی میں جاری رہا۔ علامہ اقبال برطانیہ کی اس کارروائی کے پیچھے چھپے مغربی عزائم سے واقف تھے۔ ان کی نظر میں برطانیہ جاں بوجھ کر ایک فتنے کی بنیاد رکھ رہا تھا جس کا مقصد اپنی استعماری اقتدار کو برقرار رکھنا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ یہ مسلم ممالک میں جنگ کو ہوا دینے کے مترادف ہے۔ ’’ضرب کلیم‘‘ میں اقبال رقم طراز ہیں۔
مقصد ہے ملوکیت انگلیس کا کچھ اور
قصہ نہیں نارنج کا یا شہد رطب کا
دوسری جنگ عظیم کے بعد عثمانی سلطنت کی شکست کے نتیجے میں فلسطین کا علاقہ برطانیہ کی عملداری میں آچکا تھا۔ برطانیہ کے زیر سرپرستی فلسطین کے اصل آبادکاروں کو زبردستی ان کی زمینوں سے بے دخل کیا گیا۔ فلسطینیوں نے مزاحمت کی تو یہ آبادکاری خونریز کارروائیوں میں تبدیل ہوگئی۔ انگریزوں کی تائید اور سرپرستی میں دنیا بھر سے یہودی نقل مکانی کرکے فلسطین پہنچ رہے تھے اور آبادکاروں کی حیثیت سے زبردستی حیلوں بہانوں سے فلسطینیوں کی زمینوں پر قبضہ کرتے جارہے تھے، جس کے نتیجے میں 1928 اور 1929 میں یہودیوں اور مقامی آبادی کے درمیان متعدد خونریز تصادم ہوئے۔
فلسطین ہو یا دنیا کا کوئی اور خطہ، اقبال امت مسلمہ کو پیش آنے والی کسی بھی مصیبت پر بے چین اور پریشان ہوجاتے تھے۔ یہ تو انبیاء کی سرزمین تھی، اقبال وہاں کے مسلمانوں کی مشکلات پر کیسے خاموش رہ سکتے تھے۔ انگریزوں کی یہود نواز پالیسیوں کے خلاف سات ستمبر 1949 میں لاہور میں مسلمانوں نے ایک احتجاجی جلسہ منعقد کیا، جس کی صدارت علامہ اقبال نے کی۔ اقبال نے خطاب کرتے ہوئے یہودیوں کی سفاکی کی مذمت کی اور یہودیوں کو یاد دلایا کہ ہیکل سلیمانی جو تباہ ہوچکا تھا اس کی دریافت حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے ہی کی تھی اور یہ ان کا یہودیوں پر احسان تھا کہ یورپ کے ستائے ہوئے یہودیوں کو مسلمانوں نے نہ صرف پناہ دی بلکہ انہیں اعلیٰ مناصب پر بھی فائز کیا۔ مگر یہ احسان فراموشی ہے کہ آج یہودی فلسطین میں مسلمانوں، ان کی عورتوں اور بچوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح کیے جارہے ہیں اور انھیں ان کے آبائی وطن سے بے دخل کر رہے ہیں۔
حقیقت یہ تھی کہ یہودیوں نے برطانیہ کے ساتھ ’’معاہدہ بالفور‘‘ کیا تھا جس کے تحت برطانیہ اس بات کا پابند تھا کہ یہودیوں کو فلسطین میں آباد کرے۔ اسی دور میں یہودیوں نے فلسطینیوں کی زمینوں پر زبردستی قبضہ کیا اور اس مقصد کے لیے ان کے دیہات کے دیہات اجاڑ ڈالے اور اس پر انہوں نے مزاحمت کی تو قتل و غارت گری کا بازار گرم کردیا۔
1931 میں علامہ اقبال نے انگلستان کا سفر کیا تو وہاں اقبال نے جہاں بھی موقع ملا فلسطین کی حمایت کی اور انگریزوں سے مطالبہ کیا کہ ’’معاہدہ بالفور‘‘ کو منسوخ کردینا چاہیے۔
علامہ اقبال نے 1931 میں معتمر عالم اسلامی (اسلامی کانفرنس) میں شرکت کی غرض سے فلسطین کا دورہ کیا۔ کانفرنس کے داعی امین الحسینی تھے۔ کانفرنس میں 27 ممالک کی منتخب شخصیات نے شرکت کی۔ اس کانفرنس کے متعدد مقاصد میں ایک اہم مقصد مسلمانوں کو فلسطین پر یہود کے ناجائز قبضے کی سنگینی کا احساس دلانا اور صہیونی خطرے کے خلاف عالم اسلام کی تدابیر پر غور کرنا تھا۔ فلسطین میں قیام کے دوران اقبال نے ایک موثر تقریر کی جس میں عالم اسلام کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ
’’اسلام کو الحاد مادی اور وطنی قومیت سے خطرہ ہے۔ میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ آپ دل سے مسلمان بنیں۔ مجھے اسلام دشمنوں سے اندیشہ نہیں بلکہ خود مسلمانوں سے خدشہ ہے۔‘‘
اقبال نے خاص طور پر نوجوانوں کا ذکر کیا اور مندوبین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ
’’اپنے وطنوں کو جاؤ تو روح اخوت کو ہر جگہ پھیلادو اور اپنے نوجوانوں کو خاص توجہ دو۔‘‘
سفر فلسطین سے واپسی پر اقبال وائسرائے ہند کو اور برطانوی اکابرین کو برابر احساس دلاتے رہے کہ برطانیہ کی فلسطین پالیسی صریحاً مسلمانوں کے مخالف ہے۔ اقبال نے اپنا یہ مطالبہ برابر جاری رکھا کہ فلسطین میں یہودیوں کا داخلہ روکا جائے اور ’’اعلان بالفور‘‘ واپس لیا جائے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ برطانوی پالیسی کے باعث مسلمانوں میں زبردست ہیجان اور اضطراب پیدا ہورہا ہے۔
علامہ اقبال کے خیال میں برطانیہ اپنی استعماری عزائم کو جاری رکھنے کےلیے مشرق وسطیٰ میں ایک اڈا بنانا چاہتا تھا۔ اقبال اسے عالم اسلام کےلیے ایک بڑا خطرہ سمجھتے تھے اور اس کے سدباب کےلیے وہ بڑے سے بڑا قدم اٹھانے کےلیے بھی تیار تھے۔ قائداعظم محمد علی جناح کے نام 7 اکتوبر 1937 کے ایک خط میں لکھتے ہیں کہ
’’ذاتی طور پر میں کسی ایسے امر کی خاطر جیل جانے کو بھی تیار ہوں جس سے اسلام اور ہندوستان متاثر ہوتے ہوں۔ مشرق کے دروازے پر مغرب کا ایک اڈا بننا اسلام اور ہندوستان دونوں کےلیے پُرخطر ہے۔‘‘
اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اقبال آزادی فلسطین کی خاطر انتہائی اقدام کےلیے بھی پرجوش اور پرعزم تھے۔
علامہ اقبال کا کارنامہ صرف یہی نہیں کہ انہوں نے فلسطین میں یہودیوں کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے مضمرات کو سمجھا بلکہ انہوں نے اس کے سدباب کےلیے ارباب اختیار تک آواز پہنچانے کے ساتھ ساتھ اس وقت مسلمانان ہند کی نمائندہ جماعت مسلم لیگ اور رہنما قائداعظم محمد علی جناح کو بھی حقائق اور مسئلہ فلسطین کی حساسیت سے آگاہ کیا۔ چنانچہ مسلم لیگ اور قائداعظم نے اقبال کی وفات کے بعد بھی فلسطینیوں کی حمایت جاری رکھی۔
ضرب کلیم میں فلسطینی عرب کے عنوان سے ایک نظم میں وہ کہتے ہیں کہ
زمانہ اب بھی نہیں جس کے سوز سے فارغ
میں جانتا ہوں وہ آتش ترے وجود میں ہے
تری دوا نہ جنیوا میں ہے، نہ لندن میں
فرنگ کی رگِ جاں پنجۂ یہود میں ہے
سنا ہے میں نے غلامی کی امتوں سے نجات
خودی کی پرورش و لذتِ نمود میں ہے
آج فلسطین میں حق و باطل کا جو معرکہ گرم ہے اس میں وہی روح کار فرما ہے جو ہمیں اقبال کے پیغام میں ملتی ہے۔ فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس جہاد کے جذبے سے سرشار القدس کی حفاظت کےلیے برسر پیکار ہے۔ اسلامی ممالک کے سربراہان خاموش تماشائی ہیں۔ اگرچہ مسلمانان عالم کے دل اہل فلسطین کے ساتھ دھڑکتے ہیں مگر مسلم حکمران جہاد کا اعلان کرنے سے گریزاں ہیں۔ ان کی یہ خاموشی باہمی اختلافات کی وجہ سے ہے یا امریکا اور اسرائیل کے ساتھ مفاہمت کا نتیجہ ہے۔ اقوام متحدہ اپنا کردار ادا نہیں کررہی، اس سے امید رکھنا بیکار ہے۔ دنیا میں انسانی حقوق کے علمبردار فلسطین میں بدترین مظالم اور نسل کشی پر خاموش ہیں، مگر مجاہدین کا بھروسہ صرف خدا کی نصرت اور تائید پر ہے۔ فلسطینی مجاہدین قلیل تعداد ہونے کے باوجود اسرائیل کی جدید ٹیکنالوجی کے سامنے آہنی دیوار ثابت ہوئے ہیں اور پُرامید ہیں کہ دشمن کو نیست و نابود کرکے رہیں گے۔ ان کےلیے اقبال یہ پیغام دیتے ہیں کہ
آسماں ہوگا سحر کے نور سے آئینہ پوش
اور ظلمت رات کی سیماب پا ہوجائے گی
اور یہ کہ
شب گریزاں ہوگی آخر جلوہ خورشید سے
یہ چمن معمور ہوگا نغمہ توحید سے
(بشکریہ ایکسپریس نیوز)
نوٹ:ادارے کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔