نگران وفاقی وزیر خزانہ، محصولات و اقتصادی امور ڈاکٹر شمشاد اختر نے کہا ہے کہ ہماری معیشت اب تک نازک حالت میں ہے اور موقع ملا تو ہم ممکنہ طور پر آئی ایم ایف سے ایک اور قرض پروگرام حاصل کریں گے کیونکہ برآمدات میں اضافے اور مقامی وسائل پیدا کرنے تک آئی ایم ایف کے ساتھ رہنا ضروری ہے۔ سرکاری خبر رساں ایجنسی ’اے پی پی‘ کے مطابق صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے نگران وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ کل عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ اسٹاف کی سطح کا معاہدہ ہو گیا ہے جس کی آنے والے دنوں میں آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ سے منظوری مل جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ اسٹاف سطح کے معاہدے کے بعد پاکستان کو تقریباً 70 کروڑ امریکی ڈالرز ملیں گے جس کے بعد پاکستان کو آئی ایم ایف پروگرام کے تحت ہونے والی معاونت کا حجم تقریباً 1.9 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گا۔
شمشاد اختر نے کہاکہ پاکستان نے جولائی 2023 میں آئی ایم ایف کے ساتھ 3 ارب ڈالرز کے حصول کے لیے اسٹینڈ بائی معاہدہ کیا تھا، اس معاہدے کے تحت ہم نے گزشتہ چند ماہ میں کئی کامیاب اصلاحات کیں جن سے اقتصادی سرگرمیاں بحال ہو ئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے اِقدامات سے کاروباری فضا بہتر ہوئی اور سرمایہ کاروں کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے، اصلاحات کی بدولت پاکستان کو بین الاقوامی شراکت داروں کی حمایت بھی حاصل ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے مالی سال 2024 کے بجٹ پر ثابت قدمی سے عملدرآمد کیا ہے، توانائی کی قیمتوں میں ایڈجسٹمنٹ کی گئی، اسی طرح زرمبادلہ کے بہتر انتظام کے باعث ہمیں مالی اور بیرونی دباؤ کو کم کرنے میں مدد ملی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم آئی ایم ایف کے ساتھ کام جاری رکھیں گے کیونکہ ہماری معیشت اب تک نازک حالت میں ہے، اس وقت ہماری ترجیح 3 ارب ڈالر کے پروگرام کو مکمل کرنا ہے، موقع ملا تو ہم ممکنہ طور پر آئی ایم ایف سے ایک اور قرض پروگرام حاصل کریں گے کیونکہ برآمدات میں اضافے اور مقامی وسائل پیدا کرنے تک آئی ایم ایف کے ساتھ رہنا ضروری ہے۔
نگران وزیر خزانہ نے کہا کہ گزشتہ چند مہینوں میں مہنگائی بھی پہلے کی نسبت کم ہوئی ہے اور آئی ایم ایف کو توقع ہے کہ آنے والے مہینوں میں افراط زر میں مزید کمی آئے گی۔تاہم ان کا کہنا تھا کہ ان مثبت تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی احساس ہے کہ پاکستان اہم بیرونی خطرات سے دوچار ہے جس میں جیوپولیٹکل تناؤ کے علاوہ اشیائے ضروریہ کی بڑھتی ہوئی قیمتیں اور سخت عالمی حالات بھی شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مالی استحکام کے ذریعے قرضوں میں کمی اور ترقیاتی ترجیحات کو ساتھ لے کر چلنا ہماری اولین ترجیح ہے، اس مقصد کے لیے وفاقی اور صوبائی اخراجات کو قابو میں رکھنے اور محصولات میں اضافے کو بہتر بنانا ضروری ہے جبکہ ٹیکس کی بنیاد میں وسعت اور محصولات میں اضافے کے لیے استعداد کار میں بہتری لائی جارہی ہے۔
شمشاد اختر نے کہا کہ معاشی طورپر کمزور طبقات کے بہتر تحفظ کے لیے سماجی تحفظ کے نیٹ کو مضبوط بنانا ضروری ہے، بینظیر انکم سپورٹ اسکیم کے بجٹ میں پچھلے سال کی نسبت اس سال 30 فیصد زیادہ تخصیصات کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، اس سے ہمیں جاری مالی سال میں کفالت کیش ٹرانسفرپروگرام کے تحت وظائف 93 لاکھ خاندانوں تک پہنچانے میں مدد ملے گی۔ نگران وزیر خزانہ نے کہا کہ اسٹینڈ بائی معاہدے کے تحت توانائی کے شعبے میں لاگت کو کم اوراس شعبہ میں موزونیت کو بحال کرنے پر اتفاق کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بجلی اور گیس کے شعبوں کا گردشی قرضہ ہماری مجموعی قومی پیداوار کے 4 فیصد سے تجاوز کرچکا ہے، اسے نیچے لانے کے لیے فوری کارروائی کی ضرورت ہے، ہم نے اس سلسلے میں کام شروع کر دیا ہے اور بجلی اور گیس کے نرخوں کو ایڈجسٹ کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مارکیٹ کی حرکیات پر مبنی ایکسچینج ریٹ کی پالیسی جاری رکھنا اور زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہماری ترجیحات میں شامل ہیں، ہماری ترجیحات میں متحرک و فعال زری پالیسی بھی شامل ہے تاکہ افراط زرکو اپنے مقررہ ہدف تک واپس لا سکیں۔ شمشاد اختر نے کہا کہ سرکاری کاروباری اداروں میں گورننس اصلاحات کا عمل جاری رہے گا، اس سے کاروباری ماحول میں مزید بہتری آئے گی، سرمایہ کاری کو فروغ ملے گا اور ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ سرکاری کاروباری اداروں کے قانون کی منظوری کے بعد ایس ای اوز پالیسی بھی متعارف کرائی جارہی ہے، بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ تعاون کو فروغ دیا جائے گا جبکہ پاکستان نے کثیرالجہتی اور دوطرفہ شراکت داروں کے ساتھ روابط میں اضافہ کیا ہے۔