Breaking News
Home / پاکستان / بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سابق نگراں وزیر داخلہ میر سرفراز احمد بگٹی نے پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت کا اعلان کر دیا

بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سابق نگراں وزیر داخلہ میر سرفراز احمد بگٹی نے پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت کا اعلان کر دیا

بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سابق نگراں وزیر داخلہ میر سرفراز احمد بگٹی نے پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت کا اعلان کر دیا ہے۔ سرفراز بگٹی نے بلوچستان کے مکران ڈویژن کے ضلع کیچ کے ہیڈکوارٹر تربت میں پیپلز پارٹی کے ورکرز کنونشن کے دوران شمولیت کا اعلان کیا۔ اس تقریب میں پیپلز پارٹی کے سربراہ سابق صدر آصف علی زرداری بھی شریک تھے۔ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے تربت کے اجتماع میں سرپرائز دینے کا اعلان کیا تھا۔ سرفراز بگٹی کے بارے میں پہلے خیال کیا جارہا تھا کہ وہ ن لیگ میں شمولیت اختیار کرسکتے ہیں لیکن اب ان کے پیپلز پارٹی میں شمولیت کے فیصلے کو تجزیہ کار بھی حیرت انگیز قرار دے رہے ہیں۔ سرفراز احمد بگٹی نے15 دسمبر کو الیکشن شیڈول کے اعلان سے کچھ دیر پہلے نگراں وفاقی وزیر داخلہ کے عہدے سے استعفا دیا تھا جو نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے قبول کرلیا۔ سرفراز بگٹی نے 17 اگست کو نگراں وزیر کا عہدہ سنبھالا تھا۔ وہ 2013ء میں ڈیرہ بگٹی سے آزاد حیثیت سے بلوچستان اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے اور پھر ن لیگ میں شامل ہو کر ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور 2015ء میں حکومت کی تبدیلی کے بعد نواب ثناء اللہ زہری کی کابینہ میں صوبائی وزیر داخلہ رہے۔ سرفراز بگٹی 2018 میں ن لیگ سے بغاوت کرکے بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کی بنیاد رکھنے والے افراد میں شامل تھے۔ ان کا شمار باپ پارٹی کے اہم رہنماؤں میں ہوتا تھا۔ 2018ء کے عام انتخابات میں شکست کے بعد سرفراز بگٹی ستمبر 2018ء کے ضمنی انتخاب میں سینیٹر منتخب ہوئے تھے۔ سینیٹ کی یہ نشست نعمت اللہ زہری کےاستعفے کے بعدخالی ہوئی تھی۔ ان کا خاندان نواب اکبر بگٹی کے حریفوں میں شمار ہوتا تھا۔ ان کے والد میر غلام قادر اور بھائی بھی پیپلز پارٹی سے وابستہ رہے ہیں۔ سابق نگراں وفاقی وزیر کے بارے میں گماں ظاہر کیا جارہا ہے کہ وہ پیپلز پارٹی کے وزارت اعلیٰ کے امیدواروں میں شامل ہوں گے۔ یاد رہے کہ دو ہفتے قبل سابق وزیراعلیٰ بلوچستان بی اے پی کے سابق سربراہ میر عبدالقدوس بزنجو اور ان کے چچا زاد بھائی ضلع کونسل آواران کے چیئرمین میر نصیر بزنجو نے لاہور میں سابق صدر آصف علی زرداری سے ملاقات کرکے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ عبدالقدوس بزنجو اور سرفراز بگٹی کو ملا کر پیپلز پارٹی میں حالیہ دنوں میں بلوچستان اسمبلی کے 6 سابق ارکان اسمبلی نے شمولیت اختیار کی ہے۔ تجزیہ کار شاہد رند سمجھتے ہیں کہ آصف علی زرداری نے بلوچستان سے سرپرائز دیا ہے اورنواز شریف کے نومبر میں ہونے والے دورہ کوئٹہ اور دس سے زائد الیکٹ ایبلز کی شمولیت کے بعد ن لیگ کے حق میں بننے والے تاثر اور سیاسی نقصان کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ن لیگ کی بلوچستان کی طرف پیش قدمی کے دوران ہی آصف علی زرداری نے بلوچستان میں نئی سیاسی بساط بچھا دی تھی۔ ’زرداری صاحب کی اس بساط کے نتیجے میں آئندہ انتخابات میں بلوچستان کی صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر مسلم لیگ ن، جے یو آئی اور پیپلز پارٹی میں کانٹے کا مقابلہ ہوگا۔‘ شاہد رند کہتے ہیں کہ سرفراز بگٹی نے بھی آؤٹ آف دا باکس آپشن استعمال کیا جن کے بارے میں آج سے کچھ دنوں پہلے تک تاثر تھا کہ وہ ن لیگ میں جا رہے ہیں، لیکن سرفراز بگٹی اپنے والد وڈیرہ غلام قادر بگٹی کی جماعت میں گئے جو 80ء کی دہائی میں بے نظیر بھٹو سے وابستہ تھے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی صوبائی کی قیادت کا کہنا ہے کہ آئندہ آنے والے دنوں میں بلوچستان سے مزید کئی اہم سیاسی شخصیات اور سابق پارلیمنٹرینز پارٹی کا حصہ بنیں گے۔ پارٹی کے رہنماء علی مدد جتک کے مطابق کوئٹہ میں یوم تاسیس کا جلسہ کرنے اور کئی اہم شخصیات کو پارٹی کا حصہ بنانے کے بعد ’مشن بلوچستان‘ پر کام تیز کردیا گیا ہے۔ ’پارٹی قیادت بلوچستان کی مزید اہم سیاسی شخصیات اور الیکٹ ایبلز سے رابطہ کر کے انہیں پیپلز پارٹی میں شمولیت کے لیے قائل کر رہی ہے۔ کئی سابق صوبائی وزراء سے رابطوں میں پیشرفت بھی ہوئی ہے۔‘ ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی کی قیادت نے جمالی خاندان کی اہم شخصیات سپیکر بلوچستان اسمبلی جان محمد جمالی، سابق وزیراعظم ظفراللہ جمالی کے بیٹے سابق صوبائی وزیر عمر خان جمالی، سابق صوبائی وزیر داخلہ ضیاء اللہ لانگو، ان کے بھائی سابق صوبائی وزیر خالد لانگو، پی ٹی آئی کے سابق صوبائی صدر سابق وفاقی و صوبائی وزیر سردار یار محمد رند سے رابطے کیے ہیں۔ سابق صوبائی وزیر داخلہ ضیاء اللہ لانگو کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے ان سے رابطے کیے ہیں اور وہ ان کا احترام کرتے ہیں، تاہم پیپلز پارٹی میں شمولیت کا فیصلہ نہیں کیا۔ اس سے پہلے بلوچستان عوامی پارٹی سے تعلق رکھنے والے سابق صوبائی وزراء سردار سرفراز ڈومکی، سکندر عمرانی ،پی ٹی آئی کے نائب صدر سابق صوبائی وزیر نصیب اللہ مری، مخصوص نشستوں پر ایم پی اے رہنے والی ثمینہ شکیل بھی حالیہ دنوں میں پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے ہیں۔

اس کے علاوہ پیپلز پارٹی کا حصہ بننے والی شخصیات میں سابق ضلع ناظم سبی حیربیار ڈومکی، صحبت پور سے صوبائی اسمبلی کی نشست پر چند ووٹوں سے ہارنے والے دوران خان کھوسہ، بارکھان سے تعلق رکھنے والے سابق صوبائی وزیر سردار عبدالرحمان کھیتران کے بیٹے سردار زادہ انعام کھیتران ،قلعہ عبداللہ سے تعلق رکھنے والے قبائلی رہنماء ولی خان غبیزئی، اے این پی کے صوبائی صدر سابق ایم پی اے اصغر خان اچکزئی کے بھائی اکبر خان اچکزئی نمایاں ہیں۔ ایک سال قبل بلوچستان عوامی پارٹی کے سابق صوبائی وزراء ظہور احمد بلیدی، میر عارف محمد حسنی، سابق صوبائی وزیر میر اصغر رند، سابق سینیٹر میر محمد علی رند کے صاحبزادے میر رؤف رند، پی ٹی آئی کے سابق ایم پی اے نعمت اللہ زہری کے علاوہ سابق وزیراعلیٰ نواب اسلم رئیسانی کے بھتیجے نوابزادہ جمال رئیسانی اورسابق ڈسٹرکٹ چیئرمین خضدار شکیل درانی بھی پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے۔ سابق وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری، سابق وفاقی وزیر جنرل ریٹائرڈ عبدالقادر بلوچ، سابق صوبائی وزراء کرنل ریٹائرڈ یونس چنگیزی، نواب محمد خان شاہوانی اور آغا عرفان کریم جیسی اہم شخصیات اگست 2021ء میں پیپلز پارٹی کا حصہ بنے۔ مجموعی طور پر گذشتہ دو سالوں میں پیپلز پارٹی میں دو سابق وزراء اعلیٰ، ایک سابق وفاقی وزیر، ایک سابق نگراں وفاقی وزیر اور دس سے زائد سابق ارکان بلوچستان اسمبلی شامل ہوئے ہیں۔ سیاسی تجزیہ کاروں اور مبصرین کا خیال ہے کہ ان شخصیات کی شمولیت سے پیپلز پارٹی بلوچستان میں مضبوط ہوئی ہے اور گذشتہ انتخابات کے برعکس اس بار پیپلزپارٹی کے لیے بلوچستان کا سیاسی میدان خالی نہیں رہے گا۔ سینیئر صحافی اور تجزیہ کار شہزادہ ذوالفقار کا کہنا ہے کہ نومبر کے وسط میں میاں نواز شریف، شہباز شریف اور مریم نواز شریف کے دورہ کوئٹہ اور زیادہ تر الیکٹ ایبلز کو اپنی صفوں میں شامل کرنے کے بعد یہ تاثر پیدا ہوا کہ مسلم لیگ ن نے صفایا کر دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’پیپلز پارٹی نے ہمت نہیں ہاری اور نہ صرف یوم تاسیس کا جلسہ کوئٹہ میں کیا بلکہ اہم سیاسی لوگوں کوپارٹی میں شامل کرایا۔ پیپلز پارٹی نے اس تاثر کو ختم کیا۔ آئندہ انتخابات میں ہم پیپلز پارٹی کو بلوچستان سے سرفہرست اور دوسرے نمبر پر نہ صحیح مگر اس کے بعد کے نمبروں پر دیکھیں گے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’پیپلز پارٹی کی قیادت سمجھتی ہے کہ وہ بلوچستان میں 51 عمومی نشستوں میں سے 12 سے 14نشستیں حاصل کرلے گی مگر میرا اندازہ ہے کہ پیپلزپارٹی چار پانچ یا پھر چھ سات نشستیں حاصل کرسکے گی۔ بلوچستان کے لحاظ سے یہ پوزیشن بھی بری نہیں۔ یعنی بلوچستان میں پیپلز پارٹی کی پوزیشن 2008ء کی طرح بہت اچھی نہیں تو 2018ء کی طرح بہت بری بھی نہیں ہوگی۔‘ سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سید علی شاہ بھی یہ سمجھتے ہیں کہ گذشتہ دو انتخابات کے مقابلے میں اس بار بلوچستان میں پیپلز پارٹی کی پوزیشن بہتر ہوگی، اس کی وجہ بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی میں شامل ہونے والی بعض شخصیات کی انتخابات میں کامیابی کے امکانات زیادہ ہیں۔

ان کے بقول گذشتہ انتخابات میں پیپلز پارٹی کی بلوچستان سے سینیٹ، قومی اور نہ ہی صوبائی اسمبلی میں کوئی نمائندگی تھی۔ اس بار پیپلز پارٹی کوئی لیڈنگ رول میں نہیں ہوگی، لیکن 2008ء کے بعد پی پی کی بلوچستان میں یہ دوبارہ انٹری ہوگی۔ سید علی شاہ کے مطابق زیادہ اچھی پوزیشن رکھنے والے الیکٹ ایبلز ن لیگ میں چلے گئے باقی بچے کچے الیکٹ ایبلز اور سیاسی شخصیات کے پاس کوئی دوسری جماعت بچی نہیں تھی اس لیے وہ پیپلز پارٹی میں شامل ہورہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ بلوچستان میں ذاتی، علاقائی، قبائلی اور سیاسی تضادات رکھنے والی سیاسی شخصیات ایک ہی جماعت میں اکٹھے نہیں رہ سکتیں، اس لیے جب ان کا مخالف کسی جماعت میں شامل ہو جائے تو پھر وہ اس کا حصہ بننا پسند نہیں کرتے۔ زیادہ تر الیکٹ ایبلز ن لیگ میں چلے گئے تو ان کے مخالفین کے لے ن لیگ جانا ممکن نہیں تھا، اس لیے وہ پیپلز پارٹی یا پھر کسی اور جماعت کا حصہ بن رہے ہیں۔ سید علی شاہ کا کہنا تھا کہ بلوچستان کی حد تک ایسا لگ رہے کہ ن لیگ کی اپنی اتحادی جماعتوں بلوچستان عوامی پارٹی، جمعیت علماء اسلام اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی سے ایک غیر اعلانیہ سمجھوتہ موجود ہے اور آئندہ انتخابات میں کامیابی کی صورت میں یہ مل کر صوبے میں مخلوط حکومت بنائیں گے۔ شہزادہ ذوالفقار کے مطابق آئندہ انتخابات میں بلوچستان میں سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ ن، جبکہ جے یو آئی کے دوسری بڑی جماعت بننے کے امکانات زیادہ دکھائی دیتے ہیں۔ تجزیہ کار شاہد رند کہتے ہیں کہ تین بڑی جماعتوں مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور جمعیت علماء اسلام نے بلوچستان میں پیش قدمی کی ہے۔ الیکٹ ایبلز نے پہلے جے یو آئی، پھر پیپلز پارٹی اور پھر ن لیگ میں شمولیت کی اور اب ایک بار پھر پیپلز پارٹی میں شامل ہورہے ہیں۔ یہ چوتھی لہر ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان تین جماعتوں کی پیش قدمی کے نتیجے میں سب سے زیادہ بی اے پی اور قوم پرست جماعتوں کا نقصان ہو رہا ہے۔ شاہد رند کا خیال ہے کہ جو بھی پارلیمانی جماعت 11 سے 12 نشستیں جیت لے گی تو حکومت بنانے کے لیے مضبوط پوزیشن میں ہوگی، تاہم انہیں حکومت سازی کے لیے چھوٹی جماعتوں پر پھر انحصار کرنا پڑے گا۔

Check Also

پاسپورٹس میں سابقہ شوہر کے نام کا باکس بھی ہو گا: ڈی جی پاسپورٹس

ڈی جی پاسپورٹس مصطفیٰ جمال کا کہنا ہے کہ شادی شدہ خاتون کا پاسپورٹ میں …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے