اسلام آبادہائیکورٹ نے آڈیو لیکس کیس میں ڈی جی انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) اور ڈی جی ایف آئی اے کو 19 فروری کو طلب کر لیا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس بابر ستار کی جانب سے جاری کردہ آڈیو لیکس کیس کا 7 صفحات پر مشتمل تحریری حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وفاقی حکومت نے کسی انٹیلی جنس ایجنسی کو ٹیلی فون کالز ریکارڈ کرنے کی اجازت نہیں دی۔ حکمنامے میں مزید کہا گیا ہے کہ اٹارنی جنرل نے کہا کہ تمام شہریوں کی پرائیویسی اور حقوق کا تحفظ ضروری ہے، آڈیو لیکس سوشل میڈیا پر کس نے ریلیز کیں؟ ایف آئی اے نے جواب کیلئے مہلت طلب کی۔عدالت نے کہا کہ ایف آئی اے آڈیو لیکس شیئر کرنے والے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی تفصیل کے ساتھ رپورٹ پیش کرے اور ڈی جی ایف آئی اے پیش ہو کر بتائیں کہ فون کالز کی سرویلنس اور ریکارڈنگ کیسے ہو سکتی ہے؟ حکم نامے میں لکھا ہے آئی ایس آئی نے وزارت دفاع کے ذریعے آڈیو لیکس پر اپنی رپورٹ جمع کرائی، رپورٹ کے مطابق آئی ایس آئی کے پاس سوشل میڈیا پر شیئر معلومات کے سورس کا تعین کرنے کی ٹیکنالوجی نہیں، انٹیلی جنس بیورو انکوائری کرکے رپورٹ پیش کرے آڈیو لیکس کن اکاؤنٹس سے شیئر ہوئیں۔عدالت نے حکم دیا کہ غیر قانونی ریکارڈ کی گئی کالز کی آڈیو شیئر کرنے والے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی تفصیل جمع کرائیں، ڈی جی آئی بی بتائیں پاکستانی شہریوں کی سرویلنس کون کر سکتا ہے؟ یہ بھی بتائیں کیا ریاست پاکستان کے پاس غیر قانونی سرویلنس سے محفوظ رہنےکی صلاحیت ہے؟