(تحریر: تصور حسین شہزاد)
ایران کیخلاف 1988ء میں جب بل کلنٹن کے ہاتھوں پابندیوں کے مژدے پر دستخط کروائے گئے، تو امریکہ یہ سمجھا کہ ان اقتصادی پابندیوں سے ایران امریکہ کے پاوں پکڑ لے گئے اور اپنی بقاء کی بھیک مانگے گا، مگر ایران کی خوددار قوم نے نہ صرف استقامت دکھائی بلکہ ایران نے سخت ترین پابندیوں کے باوجود خود کو معاشی و دفاعی لحاظ سے مضبوط بنایا۔ بظاہر تو یہ پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ ایران میں غربت بہت زیادہ ہے، ایران اقتصادی پابندیوں کے باعث سسک رہا ہے، مگر زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔ ایران نے اپنی کامیاب خارجہ پالیسی کی بدولت خود کو نہ صرف زندہ رکھا بلکہ مختلف شعبوں میں نمایاں ترقی کرکے دنیا کو انگشت بدنداں بھی کر دیا۔
ایران کے چین کیساتھ مضبوط ہوتے تعلقات نے امریکہ کو پریشان کردیا۔ روس کیساتھ بھی ایران کی ماضی میں کافی زیادہ کشیدگی رہی، جس کی وجہ 19ویں اور 20ویں صدی اور سرد جنگ تھی۔ لیکن اب حالات میں بدلاو آیا اور ایران روس تعلقات بھی بہتری کی شاہراہ پر گامزن ہو چکے ہیں۔ یوں روس اور چین کیساتھ ایران کے تعلقات نے ایران کی معیشت کو سنبھالا گیا اور ایران نے جاپان اور جنوبی کوریا سمیت دیگر ممالک کیساتھ بھی اپنے رابطے بڑھائے اور بہتر نتائج حاصل کئے۔ ایران کی ان پالیسیوں نے امریکہ پابندیوں کو جوتے کی نوک پر رکھا، اور آج امریکہ خود نادم ہے کہ اس نے ایران کی تباہی کیلئے جو جال بچھایا تھا، وہ تارِ عنکبوت ثابت ہوا۔
امریکہ اور چین کی پالیسیوں میں ایک واضح فرق یہ ہے کہ امریکہ جنگ کے ذریعے دولت کماتا ہے، جبکہ چین تجارت کو فروغ دے کر پیسے کمانے کو بہترین ہنر سمجھتا ہے۔ امریکہ نے ہمیشہ جنگ کے بیج بُو کر اپنا اسلحہ بیجا ہے جبکہ چین نے ہمیشہ عوام کی ضرورت کی اشیاء سستے داموں تیار کی ہیں اور ان کی بدولت تجارت سے زرمبادلہ کمایا ہے۔ کویت کیساتھ چین کے تعلقات ایک نئے موڑ پر ہیں، چین وہاں ابریشم سٹی تعمیر کرکے وہاں اپنی تجارت کو مضبوط بنا رہا ہے۔ چین نے عمان اور قاہرہ میں بھی اپنا اثر و رسوخ قائم کرلیا ہے۔ دوسری جانب ایران واحد ملک ہے جس نے خطے میں امریکہ کو ٹف ٹائم دیا ہے اور اس کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہوا ہے۔ سخت حالات کے باوجود امریکہ کے سامنے ایران نے جھکنے سے انکار کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چین کو ایران کی یہ خوددارانہ پالیسی دل وجان سے بھا گئی ہے اور چین نے ایران کیساتھ اپنے تعلقات مضبوط کر لئے ہیں۔
ایران اور چین کے درمیان ایک قدر یہ بھی مشترک ہے کہ دونوں ملک خطے میں امن کا فروغ چاہتے ہیں۔ دونوں کی خواہش ہے کہ امن ہو گا تو تجارت ہوگی اور اس تجارت سے ہی خوشحالی آئے گی جبکہ امریکی سوچ منفی ہے اور وہ جنگوں کی بنیاد پر دولت کمانے کو ہی اپنے لئے مفید سمجھتا ہے لیکن اب دنیا میں جنگوں کو اچھا نہیں سمجھا جا رہا ہے۔ امن ہر ملک کی ترجیح ہے، بالخصوص مشرق وسطیٰ کو امن کی جتنی آج ضرورت ہے، ماضی میں کبھی نہیں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ایران کی امن دوست پالیسیوں سے متاثر ہوکر کئی عرب ملک بھی ایران کے قریب ہو رہے ہیں۔ ادھر روس یوکرائن کیساتھ جنگ کے باعث جرمنی سے نالاں ہے۔ اب روس کی نظریں بھی ایشیاء کی طرف ہیں اور وہ ایشیاء کیساتھ زمینی رابطے بحال کرنے کیلئے کوشاں ہے۔ یہ راستہ روس کیلئے سستا اور موثر بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ اسی لئے وہ ایران اور چین کیساتھ بھی تعلقات کی پینگیں بڑھا رہا ہے۔
عالمی سطح پر ورلڈ آرڈر بھی تیزی سے بدل رہا ہے اور اس تبدیلی کی بدولت ایران کی خطے میں اہمیت اور زیادہ بڑھ چکی ہے۔ اور ایران علاقائی طاقت کے طور پر اُبھر رہا ہے۔ اب ایران شنگھائی تعاون تنظیم کا رکن بھی بن چکا ہے۔ یہ ایران کیلئے بہت بڑا اعزاز اور موقع ہے، جہاں وہ اپنے معیشت کی مضبوط کیلئے شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کیساتھ تعلقات میں بہتری لائے گی۔ شنگھائی تعاون تنظیم کی رکنیت ملنے پر ایران کا کہنا ہے کہ وہ ایک نئے مرحلے میں داخل ہوگیا ہے۔ اس سے ایران کیلئے توانائی کے شعبے میں نئی منڈیاں ملیں گی۔ شنھگائی تعاون تنظیم کا اندازہ 9 ارب ڈالر سے زیادہ ہے جو ایران کو اپنی برآمدت بڑھانے کا موقع دے گا جبکہ صرف چین کو ایران کی برآمدات کا حجم 5 ارب ڈالر ہے۔ اسی طرح ایران کا بھارت کیساتھ دو ارب ڈالر اور روس کیساتھ برآمدات کا حجم ایک ارب ڈالر سے زائد کا ہوچکا ہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم میں ایران کو صرف توانائی کے شعبہ میں ہی نہیں بلکہ انجینرنگ، ٹیکنالوجی، سروسز اور اشیاء کی برآمدات بھی شامل ہیں۔ اس رکنیت سے ایران کو بین الاقوامی پانیوں تک بھی رسائی مل گئی ہے، اور یوں ایرانی تجارت میں اضافہ ہو گا۔ ایران اور روس گیس اور تیل کی پیداوار میں اعلیٰ سطح پر ہیں، اور ساتھ ہی چین، بھارت اور پاکستان تیل اور گیس کے بڑے صارف ہیں، ازبکستان، کرغزستان اور تاجکستان نئی توانائی کی منڈیاں ہیں۔ شنگھائی تعاون تنظیم میں شمولیت سے ایران کیلئے نئے دروازے کھلیں گے اور خطے میں سیاسی اور اقتصادی معاملات اور ممالک کے وزرائے خارجہ اور صدور کے درمیان سالانہ ملاقاتوں میں بھی اضافہ ہوگا، جو ایران کیلئے مفید ثابت ہوگا۔
ایران کیساتھ ساتھ مستقبل میں مصر، سعودی عرب اور قطر بھی اس پلیٹ فارم کا حصہ بنتے دکھائی دے رہے ہیں۔ مذکورہ تینوں ممالک اس وقت تعاون تنظیم کے ’’ڈائیلاگ پارٹنر‘‘ کا درجہ رکھتے ہیں۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے مستقل ارکان میں چین، بھارت، روس، پاکستان، قازقستان، تاجکستان، کرغزستان، ازبکستان اور ایران شامل ہیں۔ شنھگائی تعاون تنظیم کی مستقل رکنیت ملنا جہاں ایران کیلئے فائدہ مند ہے، وہیں یہ امریکہ کے منہ پر ایک زور دار طمانچہ اور امریکہ کی عبرتناک شکست بھی ہے کیونکہ امریکہ نے جس ایران کو دنیا میں تنہا کرنا چاہا تھا، وہی ایران آج مختلف پلیٹ فارم پر دنیا کی ضرورت بن چکا ہے۔
نوٹ:ادارہ کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔