جنوبی افریقہ نے عالمی عدالت انصاف سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسرائیل کو غزہ میں فوجی آپریشن کو فوری طور پر معطل کرنے کا حکم دے۔ بین الاقوامی خبر رساں اداروں روئٹرز اور اے پی کے مطابق جمعرات کو نیدرلینڈز کے شہر دی ہیگ میں جنوبی افریقہ کی جانب سے یہ مطالبہ اقوام متحدہ کی اعلیٰ ترین عدالت میں اسرائیل کے خلاف مقدمے کی سماعت کے پہلے دن کے اختتام پر سامنے آیا۔ اسرائیل ان الزامات کا جواب جمعے کو دے گا۔ جنوبی افریقہ کا کہنا ہے کہ اسرائیل غزہ میں فلسطینی شہریوں کی نسل کشی کر رہا ہے۔اسرائیل کو عالمی عدالت انصاف میں ’نسل کشی‘ کے الزامات کا سامنا ہے۔ جنوبی افریقہ نے غزہ میں اسرائیل کی فوجی مہم کے خلاف اپنے کیس کی عالمی عدالت انصاف میں سماعت کے پہلے دن اسرائیل پر ’نسل کشی کے ارادے‘ کا الزام عائد کیا ہے۔ تین ماہ کی اسرائیلی بمباری نے غزہ کا بڑا حصہ تباہ کر دیا ہے جس میں 23 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے اور تقریباً 23 لاکھ فلسطینی بےگھر ہوئے۔
اسرائیل کے محاصرے نے غزہ میں خوراک، ایندھن اور ادویات کی سپلائی کو محدود کر دیا ہے جس کے بارے میں اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ یہ انسانی تباہی ہے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ اپنے دفاع کے لیے اس کے پاس واحد آپشن غزہ پر حکمرانی کرنے والے اسلامی گروپ حماس کو ختم کرنا ہے جس کے عسکریت پسندوں نے سات اکتوبر کو اسرائیل پر حملہ کیا تھا۔ اس حملے کے نتیجے میں 12 سو افراد ہلاک جبکہ 240 کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔ اسرائیل عام شہریوں کو پہنچنے والے تمام نقصانات کا قصوروار حماس کو ٹھہراتا ہے تاہم عسکریت پسند اس الزام کی تردید کرتے ہیں۔ ہیگ میں واقع عالمی عدالت انصاف میں جنوبی افریقہ کی طرف سے دائر کیے گئے مقدمے میں اسرائیل پر 1948 کے نسل کشی کنونشن کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ یہ کنونشن ہولوکاسٹ میں یہودیوں کے بڑے پیمانے پر قتل کے تناظر میں نافذ کیا گیا تھا، جو تمام ممالک کو اس بات کو یقینی بنانے کا حکم دیتا ہے کہ ایسے جرائم کبھی نہ ہوں۔
اسرائیلی حکومت کے ترجمان ایلون لیوی نے کہا کہ ’اسرائیل کی ریاست جنوبی افریقہ کے مضحکہ خیز خونریزی کے الزام کو ختم کرنے کے لیے بین الاقوامی عدالت انصاف کے سامنے پیش ہو گی کیونکہ پریٹوریا (جنوبی افریقہ کا دارالحکومت) حماس کی ریپسٹ حکومت کو سیاسی اور قانونی تحفظ دے رہا ہے۔‘ اپنے گھر سے فرار ہونے کے بعد جنوبی غزہ کی پٹی میں اقوام متحدہ کے ایک سکول میں پناہ لینے والے 23 سالہ عامر صلاح نے روئٹرز کو بتایا کہ غزہ کے رہائشیوں کو امید ہے کہ اس مقدمے سے اسرائیل جنگ کو روکنے پر مجبور ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ ’اسرائیل ہمیشہ قانون سے بالاتر ریاست رہی ہے۔ انہوں نے غزہ میں جو کچھ کیا وہ جانتے تھے کہ جب تک امریکہ ان کے ساتھ ہے انہیں سزا نہیں دی جا سکتی۔ یہ اسے تبدیل کرنے کا وقت ہے۔
ہم جنوبی افریقہ کو سلام پیش کرتے ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ جنگ بند ہو اور عدالت ایسا کر سکے۔‘ امریکہ نے کہا کہ اسرائیل کو شہری ہلاکتوں کو کم کرنے کے لیے مزید اقدامات کرنے چاہییں تاہم نسل کشی کے الزامات کو ’بے بنیاد‘ قرار دیا۔ محکمہ خارجہ کے ترجمان میٹ ملر نے کہا کہ ’درحقیقت میں وہی لوگ اسرائیل پر پُرتشدد حملہ کر رہے ہیں جو کُھلے عام اسرائیل کے خاتمے اور یہودیوں کے قتلِ عام کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں۔‘ حماس کے عہدیدار سامی ابو زہری نے روئٹرز کو بتایا کہ ’ہم عدالت پر زور دیتے ہیں کہ وہ تمام دباؤ کو مسترد کرے اور اسرائیلی قبضے کو مجرمانہ قرار دینے اور غزہ پر جارحیت کو روکنے کا فیصلہ کرے۔‘ ’انصاف کے حصول میں ناکامی، عدالت کے ناکام کردار کا مطلب یہ ہو گا کہ قابض غزہ میں فلسطینی عوام کے خلاف اپنی نسل کشی کی جنگ جاری رکھے گا۔‘