Breaking News
Home / پاکستان / اظہار رائے بہت بڑی چیز ہے اور اس کو کبھی بھی دبانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے، ٹیکنالوجی کے دور میں ریاستیں اظہار رائے کو قابو نہیں کر سکتیں,جسٹس اطہر من اللہ

اظہار رائے بہت بڑی چیز ہے اور اس کو کبھی بھی دبانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے، ٹیکنالوجی کے دور میں ریاستیں اظہار رائے کو قابو نہیں کر سکتیں,جسٹس اطہر من اللہ

سپریم کورٹ کے جج جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ اگر کوئی خودمختار جج سوشل میڈیا کا اثر لیتا ہے تو وہ اپنے حلف کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ سنیچر کو اسلام آباد میں سیمینار سے خطاب میں جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اظہار رائے بہت بڑی چیز ہے اور اس کو کبھی بھی دبانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے، ٹیکنالوجی کے دور میں ریاستیں اظہار رائے کو قابو نہیں کر سکتیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر آزادی اظہار رائے ہوتی اور اس کی قدر بھی ہوتی تو 1971 میں پاکستان کو ٹوٹتے ہوئے نہ دیکھتے، اس وقت مغربی پاکستان کے تمام اخبار لوگوں کو ایک مختلف تصویر دکھا رہے تھے اور ایسا مسلسل ہوتا رہتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’ہر ایک کو اپنے آپ سے سوال پوچھنا چاہیے کہ ہم کس طرف جا رہے ہیں، کیا ہم اصولوں پر بات کر رہے ہیں۔ ہم جتنا پولارائزڈ (منقسم) معاشرہ ہو گئے ہیں، ہم اپنی مرضی کے فیصلے چاہتے ہیں اور اپنی مرضی کی گفتگو چاہتے ہیں۔‘
’اگر 75 سال ہم نے اظہار رائے کی قدر ہوتی اور اظہار رائے کو صحیح معنوں میں پنپنے دیا ہوتا تو نہ پاکستان دو لخت ہوتا اور نہ ہمارے لیڈر سولی پر چڑھتے۔‘
جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ کسی بھی کرمنل کیس کا ایک بنیادی اصول ہے کہ جرم ثابت ہونے تک ملزم کو معصوم سمجھا جاتا ہے لیکن سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے ٹرائل کے دنوں میں اس وقت کے اخبارات دیکھیں تو انہیں ملزم یا معصوم کے طور پر نہیں پیش کیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ عدلیہ پر دو قسم کی تنقید ہوتی ہے، ایک یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ دانستہ پر فیصلے ہو رہے ہیں اور دوسرا کسی بھی ناپسندیدہ شخص کو عدالت سے ریلیف ملنے پر سوال اٹھایا جاتا ہے لیکن وقت کے ساتھ سچائی خود سامنے آتی ہے۔

جج کے کردار پر بات کرتے ہوئے جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ججوں کو خودمختار ہونا چاہیے، توہین عدالت کے اصول جج کو تحفظ دینے کے لیے وضع نہیں کیے گئے۔

انہوں نے کہا کہ جج کو کسی تنقید سے گھبرانا نہیں چاہیے، جج کی دیانتداری پر سوالیہ نشان لگایا جاتا ہے کیونکہ ناپسندیدہ شخص کو ریلیف دیا۔ لیکن اگر ہر تنقید کرنے والا بھی اسی عدالت پر اعتماد کرے تو یہ عدلیہ کا امتحان ہے، کہ تنقید ہر ایک کرے لیکن پھر تنقید کے بعد اعتماد بھی کرے۔‘

’سوشل میڈیا کا عدلیہ کی خودمختاری پر کوئی اثر نہیں ہونا چاہیے۔ ایک جج جو خودمختار ہو جس نے حلف اٹھایا ہو، اس پر جتنی بھی تنقید ہو جائے لیکن اگر وہ کسی قسم کا اثر لیتا ہے تو وہ اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتا ہے۔‘

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ’بحیثیت جج ہم پبلک پراپرٹی ہیں۔ ہم اچھے ہیں یا برے ہیں وہ ہمارے فیصلے بتاتے ہیں اور وہ کوئی ایک فیصلہ نہیں ہے بلکہ اپنے کیریئر میں جو کچھ کریں گے، اس سے سچائی خود ہی سامنے آ جائے گی۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ کبھی بھی عدلیہ یا کسی جج کو یہ سوچنا ہی نہیں چاہیے اور نہ ہی یہ کوشش کرنی چاہیے کہ وہ کسی کورٹ رپورٹر کو منع کرے یا اس پر اثر انداز ہو۔

جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ آج کے دور میں عدالتی رپورٹرز کے لیے ایک نیا چیلنج ہے کیونکہ وہ صرف رپورٹنگ نہیں کرتے بلکہ وی لاگز بھی کرتے ہیں اور اس میں کمرشل مفاد بھی ہوتا ہے اور یہ عدلیہ کے لیے بھی یہ ایک بڑا چیلنج ہے لیکن ایسے میں عدلیہ کو نہ گھبرانا چاہیے، نہ خائف ہونا چاہیے اور نہ کوئی جج خائف ہو سکتا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ حل ایک ہی ہے اور وہ آئین میں ہی لکھا ہوا ہے کہ آزادی اظہار رائے کی پاسداری کرنا۔
انہوں نے کہا کہ ہم ایسے ماحول میں رہتے ہیں کہ سیاسی لیڈر اگر کمزور ہو جائے تو یا ریاستی طور پر اور یا پھر ایک بہت بڑا مخالف گروہ عدالت کی طرف سے سزا سنائے جانے سے پہلے ہی سزا دے چکا ہوتا ہے۔

Check Also

پاسپورٹس میں سابقہ شوہر کے نام کا باکس بھی ہو گا: ڈی جی پاسپورٹس

ڈی جی پاسپورٹس مصطفیٰ جمال کا کہنا ہے کہ شادی شدہ خاتون کا پاسپورٹ میں …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے