یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ نے مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل پر زور دیتے ہوئے اسرائیل سے کہا ہے کہ وہ صرف فوجی طریقے سے امن قائم نہیں کر سکتا۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق بلاک کے 27 وزرائے خارجہ برسلز میں اسرائیل، فلسطینی اتھارٹی اور اہم عرب ریاستوں کے ہم منصبوں سے الگ الگ ملاقاتیں کریں گے۔
جوزف بوریل نے اقوام متحدہ کی جانب سے اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کے فلسطینی ریاست کے قیام کے مطالبات کو مسترد کرنے کے بیان کی مذمت کی۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم جو کرنا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ دو ریاستی حل تیار کیا جائے۔ تو آئیے اس کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ امن اور استحکام صرف فوجی طریقے سے قائم نہیں کیا جا سکتا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ان کے ذہن میں دوسرے کون سے حل ہیں؟ کیا تمام فلسطینیوں کو وہاں سے نکل جانا ہے؟ انہیں مارنے کے لیے؟‘
یورپی یونین کے حکام نے زور دیا ہے کہ ’اب وقت آ گیا ہے کہ اسرائیل فلسطین تنازع کو حتمی طور پر حل کرنے کے بارے میں بات کی جائے۔‘
یورپی یونین کے اعلیٰ سفارت کار نے کہا کہ انہوں نے بلاک کے وزراء کو پائیدار امن کی تلاش کے لیے جامع نقطہ نظر کے ساتھ موقف پیش کرنے کا کہا ہے۔
یورپی یونین نے غزہ کے تنازع پر مشترکہ موقف کے لیے خاصی محنت کی ہے۔ یورپی یونین کے حکام نے غزہ میں جنگ ختم ہونے کے بعد کے دن کے حوالے سے کچھ مطالبات پیش کیے ہیں۔
یورپی یونین کی جانب سے طویل مدتی اسرائیلی قبضے اور حماس کی حکمرانی کا خاتمہ اور علاقے کو چلانے کے لیے فلسطینی اتھارٹی کے کردار کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
اسرائیلی وزیراعظم کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ ’حماس کو تباہ کرنے کے بعد اسرائیل کو چاہیے کہ وہ غزہ کی سکیورٹی سنبھال لے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ غزہ اسرائیل کے لیے مزید خطرہ نہ بنے۔‘
حماس کے خلاف جنگ میں اسرائیل کے اہم اتحادی اور حامی امریکہ نے بھی حال ہی میں فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت کا اعادہ کیا تھا۔
حالیہ دنوں میں اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے فلسطینی ریاست کے قیام کی مخالفت کی تھا اور اپنے امریکی اتحادی کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
اسرائیل نے غزہ میں اپنی جنگ کا آغاز سات اکتوبر کو حماس کے حملے کے بعد کیا تھا جس میں حکام کے مطابق 12 سو افراد مارے گئے تھے جن میں زیادہ تر عام شہری تھے اور 240 کو یرغمال بنایا گیا تھا۔