اسلام آباد ہائی کورٹ نے تمام لاپتہ افراد کے مقدمات کو براہ راست نشر کرنے کا حکم دیا ہے۔ جمعے کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے مغوی شاعر احمد فرہاد کی بازیابی کے لیے دائر درخواست کی سماعت کے اختتام پر حکم جاری کیا کہ آئی ایس آئی، ایم آئی کے سیکٹر کمانڈرز، ڈائریکٹر انٹیلی جنس بیورو، سیکریٹری داخلہ اور سیکریٹری دفاع اگلی سماعت پر 29 مئی کو ذاتی حیثیت میں پیش ہوں۔ جاری کیے گئے تحریری حکم نامے میں وزیر قانون اور سیکریٹری قانون کو بھی عدالت کی معاونت کے لیے پیش ہونے کا کہا گیا ہے۔
عدالت نے تفتیشی افسر کو آئی ایس آئی کے سیکٹر کمانڈر کا ضابطہ فوجداری کی دفعہ 161 کا بیان قلمبند کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔ تحریری حکم نامے کے مطابق ’عدالت ضروری سمجھتی ہے کہ تمام اداروں کو اپنی آئینی حدود میں رہ کرکام کرنا چاہیے۔‘ جسٹس محسن اختر کیانی کے جاری کردہ تحریری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ عدالت زیرِبحث مقدمے کی کارروائی رپورٹ کرنے کی اجازت دیتی ہے۔ ’پولیس حکام نے بتایا کہ مغوی کی لوکیشن ٹریس کر لی گئی ہے، جلد متعلقہ جگہ اور لوگوں تک پہنچنے میں کامیابی ہو گی۔‘ تحریری آرڈر کے مطابق ’عدالتی کارروائی کے دوران صحافی حامد میر نے بتایا کہ پیمرا نے الیکٹرانک میڈیا کو کورٹ پروسیڈنگ رپورٹ کرنے سے روک دیا ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا نوٹیفکیشن کی روشنی میں عدالت جس کیس میں مناسب سمجھے اس کی رپورٹنگ کا حکم دے سکتی ہے۔‘ عدالتی حکم میں لکھا گیا کہ ’یہ اہم نوعیت کا مقدمہ ہے لہٰذا یہ عدالت اس مقدمے کی کارروائی رپورٹ کرنے کی اجازت دیتی ہے۔ لاپتہ افراد کا مسئلہ فرد واحد کا مسئلہ نہیں، نہ ہی موجودہ مغوی کی بازیابی کے بعد ختم ہو جائے گا، تمام مسائل کا حل ایجنسیوں کے اندرونی معاملات کو سمجھنے کے بعد ہی کیا جا سکتا ہے۔ لاپتہ افراد کا مسئلہ اس وقت مفاد عامہ کا سب سے اہم مسئلہ ہے۔ پارلیمنٹ سے قانون سازی نہیں ہو سکی جس سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کردار کو قابل مواخذہ بنایا جا سکے۔‘ عدالت نے اس حوالے سے 12 سوالات کے جواب بھی مانگے ہیں۔