راولپنڈی(ویب ڈیسک) ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم نے کہا ہے کہ جنرل باجوہ نے غیر معینہ مدت تک آرمی چیف بنانے کی پیش کش کو ٹھکرا دیا تھا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے کہا کہ سائفر اور ارشد شریف کی وفات کے حوالے سے حقائق پر پہنچنا بہت ضروری ہے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ جھوٹے بیانیے سے لوگوں کو گمراہ کیا گیا،
سائفر اور ارشد شریف کی وفات کے حوالے سے حقائق پر پہنچنا بہت ضرری ہے تاہم آئی ایس آئی کو سائفر سے متعلق کسی سازش کے شواہد نہیں ملے۔ سائفر کا بہانہ بنا کر افواج کی تضحیک کی گئی اور پاکستان کے اداروں، بالخصوص فوج کو سازش کا حصہ بنایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ہر ممکن کوشش کی کہ سیاستدان مل بیٹھ کر مسائل کا حل نکالیں۔ پروپیگنڈے کے باوجود آرمی چیف نے نہایت تحمل کا مظاہرہ کیا جبکہ 27 مارچ کو جلسے میں کاغذ کا ٹکڑا لہرانا حیران کن تھا۔
لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے کہا کہ فوج کے پولیٹیکل اسٹاف کو متنازعہ نہ بنایا جائے۔ ارشد شریف کو کینیا جانے کا کیوں کہا گیا اور ارشد شریف کو دبئی سے جانے پر کس نے مجبور کیا ؟ اور بھی تو 34 ممالک ہیں جہاں پاکستانیوں کے لیے ویزا فری انٹری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری اطلاع کے مطابق ارشد شریف کو سرکاری سطح پر دبئی جانے پر مجبور نہیں کیا گیا۔ عرب امارات میں ارشد شریف کے قیام و طعام کا کون بندوبست کر رہا تھا۔
تحقیقات کے لیے نمائندوں اور ماہرین کو بھی شامل کرنا چاہیے اور اگر ارشد شریف کیس منطقی انجام تک نہ پہنچا تو اس کا بہت نقصان ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم غدار، سازشی یا قاتل نہیں ہو سکتے جبکہ پاکستانی سفیر کی رائے کو اپنی سازش کے لیے استعمال کیا گیا۔ ملک اور ادارے کا مفاد ہے کہ ہم خود کو آئینی کردار تک محدود رکھیں اور پاکستان کو کسی صورت غیر مستحکم ہونے نہیں دیں گے۔ لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے کہا کہ معاملات میں سی ای او سلمان اقبال کا نام بار بار آتا ہے انہیں پاکستان لایا جائے اور متنازعہ پروگرام کے حوالے سے اے آر وائے کے عماد یوسف سے پوچھا گیا تو عماد یوسف نے بتایا کہ سی ای او سلمان اقبال نے ہدایات دیں کہ انہیں فوری ملک سے باہر بھیج دیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ ٹریول پلین کے مطابق 9 ستمبر 2022 کو ارشد شریف کو واپس آنا تھا۔ ارشد شریف نے اداروں پر بہت تنقید کی لیکن اس کے باوجود ان سے کوئی مسئلہ نہیں تھا اور سائفر معاملے کے بعد بھی ارشد شریف پاکستان میں ہی رہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ پاکستان کو جو بھی خطرات ہیں ہم ان سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں اور پاکستان کو کوئی بیرونی خطرہ نہیں ملک کا چپہ چپہ محفوظ ہے۔ 2019 میں جو شرارت ہوئی اس کا انجام سب نے دیکھ لیا۔ انہوں نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد ناکام بنانےکے لیے آرمی چیف کو غیرمعینہ مدت تک توسیع کا کہا گیا تو ہم نے کہا کہ آئین وقانون کے تحت آپ نے جو کرنا ہے وہ کریں اور ہم کوئی ایسی مدد فراہم نہیں کرسکتے جو آئین و قانون کے مطابق نہ ہو۔ ارشد شریف کے معاملے میں تھرڈ پارٹی ملوث ہو سکتی ہے لیکن شوشل میڈیا پر بدقسمتی سے ایسی باتیں کی جاتی ہیں ایسے لگتاہے کسی کی رائے ہے ہی نہیں۔ پچھلی حکومت میں بھی ادارے کے خلاف بہت پروپیگنڈا کیا گیا تھا۔
لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے کہا کہ سوشل میڈیا میں بدقسمتی سے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا ہے۔ ہماری آبادی کا 65 فیصد یوتھ ہے جو سوشل میڈیا کا استعمال کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کا دفاع مضبوط ہے کیونکہ اس کی ذمہ داری 22 کروڑ عوام نے لی ہے لیکن ارشد شریف اور بہت سے ان جیسے صحافیوں کو رجیم چینج کا بیانیہ فیڈ کیا گیا۔ شہباز گل نے اے آر وائی پر فوج میں بغاوت کے اکسانے کا بیان دیا۔ اے آر وائی چینل نے پاک فوج اور قیادت کے خلاف سازشی بیانیے کو فروغ دیا اور لفظ نیوٹرل کو گالی بنادیا گیا اور ہمارے شہدا کا مذاق بنایا گیا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ایک متحد قوم ہی چیلنجز کا مقابلہ کر سکتی ہے اور ہم بطور ادارہ کبھی اپنی قوم کو مایوس نہیں کریں گے۔ یہ وقت اتحاد، تنظیم اور نظم و ضبط کا ہے۔
ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم نے کہا کہ آج اپنی ذات کے لیے نہیں بلکہ ادارے کے لیے سامنے آیا ہوں۔ مارچ میں آرمی چیف کو مدت ملازمت میں غیر معینہ مدت کی پیش کش میرے سامنے کی گئی جسے جنرل قمر جاوید باجوہ نے ٹھکرا دیا تھا اور آپ رات کے اندھیرے میں آرمی چیف سے ملتے رہے۔ اطلاع کے مطابق ارشد شریف کو تھریٹ الرٹ خیبر پختونخوا سے ملا لیکن تفصیلات شیئر نہیں کی گئیں کہ وہ تھریٹ خیبر پختونخوا حکومت کو کیسے ملا؟ انہوں نے کہا کہ ارشد شریف کی زندگی کو پاکستان میں کوئی خطرہ نہیں تھا اور ارشد شریف کے خاندان میں غازی اور شہید بھی ہیں۔
جھوٹ بڑی آسانی اور فراوانی سے بولا جا رہا ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ رات کے اندھیرے میں ملاقات کریں اور دن کی روشنی میں غدار کہیں۔ آرمی چیف اگر غدار ہوتے تو ان کی مدت ملازمت میں توسیع کی پیش کش کیوں کی گئی؟ لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم نے کہا کہ لسبیلہ حادثے کو بھی مذاق بنایا گیا جبکہ لسبیلہ میں ہمارے کور کمانڈر اور جوانوں نے اس مٹی کے لیے جان قربان کی۔ آرمی کے جوان پہلی دفاعی لائن بن کر کام سرانجام دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو عدم استحکام سے خطرہ ہے جبکہ چور دروازے اور غیر قانونی طریقے استعمال کریں تو ملک میں انتشار آتا ہے اور ملک میں فتنہ فساد ہو تو خاموشی اچھی نہیں ہوتی۔ کسی کو میر جعفر اور میر صادق کہا گیا جس کی مذمت کرتے ہیں۔
اگر آپ کا سپہ سالار غدار یا میر جعفر ہو تو تعریفوں کے پل کیوں باندھے گئے۔ ڈی جی آئی ایس آئی نے کہا کہ صدر پاکستان کی جن ملاقاتوں کا کہا جا رہا ہے وہ ملاقاتیں ہوئیں لیکن وہ ملاقاتیں منطقی انجام تک نہیں پہنچ سکیں۔ بلا ضرورت سچ بھی شر ہے۔ پاکستان جمہوری ملک ہے، دوستوں اور دشمنوں کا فیصلہ کرنا منتخب حکومت کا کام ہے جبکہ فوج یا ادارے کا کام خفیہ معلومات اور رائے دینا ہے۔ پاکستان کو بیرونی خطرات یا عدم تحفظ سے خطرہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ارشد شریف کے قتل کی کینیا میں بھی انکوائری ہو رہی ہے اور میں کینیا کے اپنے ہم منصب سے رابطے میں ہوں۔
ابتدائی تحقیقات کے مطابق شناخت کی غلطی کی وجہ سے یہ واقعہ پیش آیا تاہم شناخت کی غلطی اور قتل کے معاملے پر ہم اور حکومت پاکستان مطمئن نہیں ہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل جنرل ندیم انجم نے کہا کہ گزشتہ دنوں ادارے کے خلاف غلط نعرے لگائے گئے اور ادار ے کے خلاف نعروں کی مذمت وزیر اعظم، وزیر قانون، وزیر خارجہ نے بھی کی۔ حکومت بین الاقوامی طور پر جس کو بھی انکوائری کا حصہ بنانا چاہتی ہے بناسکتی ہے لیکن کسی کو لفافہ ملنے کا کہنا غلط ہے،
ہمارے صحافی جان کو خطرے میں ڈال کر کام کرتے ہیں۔ میرے ذہن میں کوئی ایسا نہیں ہے جسے میں بطور ڈی جی آئی ایس آئی لفافہ کہہ سکوں۔ انہوں نے کہا کہ ادارے کی ضرورت پڑی تو ہر ممکن مدد فراہم کی جائے گی اور اگر کمیشن کو ادارے کی ایکسپرٹیز کی ضرورت ہوئی تو ہر ممکن مدد فراہم کریں گے۔ میں اپنی ذات کو اہمیت دیتا تو میں نے بتایا کہ مارچ میں سامنے آتا۔ ہمیں کسی کے احتجاج، لانگ مارچ یا دھرنے پر اعتراض نہیں اور جب زیادہ لوگ اکٹھے ہوں تو خطرہ ہوتا ہے اس لیے ہمارا فرض ہے کہ ہم سیکیورٹی دیں۔ اسلام آباد آنا اور احتجاج کرنا آئینی حق ہے۔