اسلام آباد(ویب ڈیسک)وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے کہا کہ ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کرنے والی ٹیم کی بریفنگ سے پتا چلتا ہے کہ صحافی کی ٹارگٹ کلنگ کی گئی، کینیا کی پولیس کی طرف سے ’غلط شناخت‘ کا مؤقف ثابت نہیں ہوتا کیونکہ اس میں بہت زیادہ شکوک و شبہات ہیں، ویسے بھی وہاں کی پولیس ان کاموں میں ماہر ہے اور پیسہ لے کر بھی ایسے کام کرتی ہے۔ منگل کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے کہا کہ کینیا کی پولیس کے لیے یہ مشہور ہے کہ وہ ان کاموں میں ماہر ہے، پیسہ لے کر بھی ایسے کام کرتی ہے کیونکہ ارشد شریف کی گاڑی پر ٹیکنیکل طریقے سے فائر ہوئے ہیں اور پولیس کو یہ بھی معلوم تھا کہ ارشد شریف کس نشست پر بیٹھا تھا اور ڈرائیور کو بھی معلوم تھا کہ کس جگہ پر کیا ہونا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم سے بھی درخواست کروں گا کہ وہ کینیا حکومت سے دوبارہ بات کریں اور ارشد شریف کے موبائل اور لیپ ٹاپ سمیت جو ڈیٹا ہمیں درکار ہے وہ فراہم کیا جائے۔ وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے عمران خان کے لانگ مارچ پر بات کرتے ہوئے کہا کہ 10 سے 15 لوگ کہیں سے ویگن میں آتے ہیں اور وہ سڑک پر کھڑے ہوکر ٹائر نکال کر جلاتے ہیں اور پھر سڑک بند کر دیتے ہیں۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ سڑک بند ہونے کی وجہ سے لوگوں کو ہسپتال، بچوں کو اسکول چھوڑنے یا لانے، خوشی و غم میں شریک ہونے میں مشکلات کا سامنا ہے، پھر اگر کسی ضروری کام سے باہر جانے سے مجبور ہوکر لوگ ان کے گلے پڑتے ہیں تو وہاں پولیس ان کی حفاظت کے لیے موجود ہوتی ہے۔ رانا ثنااللہ نے کہا کہ کچھ مقامات پر جہاں یہ فسادی احتجاج کے نام پر سڑکیں بلاک کرکے بیٹھے ہیں،
وہاں پولیس نے دونوں اطراف پر الگ سے رکاوٹیں قائم کی ہوئی ہیں تاکہ عوام ان کے قریب نہ آسکے۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ یہ صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ آمد و رفت کے راستوں کو کھلا رکھے، آج وزارت داخلہ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا حکومت کو تحریری طور پر لکھا ہے اور انہیں یہ یاد دہانی کرائی ہے کہ آج تیسرا دن ہے جہاں کروڑوں لوگ چند سو شرپسند احتجاجیوں کی وجہ سے رسوا ہو رہے ہیں اور اپنی منزل پر پہنچنے اور ضروریات زندگی پورا کرنے سے قاصر ہیں۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ صوبائی حکومتیں اپنی ذمہ داری پوری کریں ورنہ اگر انہوں نے اس بات کو سنجیدہ نہ لیا تو انہیں یہ باور کروانا چاہتا ہوں کہ اس کے آئینی نتائج ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ، چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اور چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سے میری یہ گزارش ہے کل کو یہ ریلیف لینے کے لیے آپ کے پاس پہنچیں گے تو آپ اس کا نوٹس لیں کیونکہ یہ آئین و قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ عمران خان نے اسلام آباد کی حدود سے دور پنجاب اور خیبرپختونخوا کی حدود میں بیٹھ کر عوام کے لیے تکلیف، پریشانی اور مشکل پیدا کر رکھی ہیں جبکہ عوام نے اس فتنہ فساد مارچ کو مکمل طور پر مسترد کردیا ہے۔ انہوں نے صوبائی حکومتوں پر زور دیتے ہوئے کہا کہ فوری طور پر قومی شاہراہوں اور موٹرویز کے ٹول پلازہ کو کھلوائیں اور چند مٹھی بھر شرپسند عناصر کی حفاظت نہ کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ جن لوگوں کو اس صورتحال میں تکلیف سے دوچار ہونا پڑا، میں وزیر داخلہ ہونے کے ناطے ان سے معذرت کرتا ہوں اور یقین دلاتا ہوں کہ اس صورتحال کو زیادہ دیر چلنے نہیں دیں گے۔
رانا ثنااللہ نے کہا کہ میں ان شرپسندوں کو خبردار کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے پاس تمام رپورٹس پہنچ رہی ہیں اور عوامی جذبات کے پیش نظر ہمیں عوامی ردعمل کا اندیشہ ہے لہٰذا کہیں ایسا نہ ہو کہ جو پولیس ان کی حفاظت کر رہی ہے وہ ناکام ہوجائے اور عوام ان کا گھیرہ تنگ کر لیں، یہ صورتحال دو تین مقامات پرپیدا ہوئی ہے جو کل کو مزید بڑھے گی اور ان کو بھاگنے کی جگہ تک نہیں ملے گی۔ وزیر داخلہ نے عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پونے چار سالوں میں آپ ریاستِ مدینہ کا راگ الاپتے رہے جبکہ یہ تو فرح گوگی کی ریاست تھی اور ان چیزوں نے لوگوں کے جذبات کو بری طرح مجروح کیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ وزیر آباد واقعے میں جو ابتدائی انکوائری اور تفتیش میں پیش رفت ہوئی ہے یا ہو رہی ہے ان سے ظاہر ہے کہ نوید ہی ملزم ہے، اس کے علاوہ کوئی اور نہیں ہے اور اس کے فون سے جو چیزیں ملی ہیں اس سے پتا چلتا ہے کہ وہ بہت بری طرح سے موٹی ویٹڈ تھا اور اس کا کسی سیاسی یا مذہبی جماعت سے تعلق نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نیازی کی کوشش تھی کہ وہ اسی بہانے ملک دشمن اور فتنہ و فساد پر مبنی ایجنڈے کو پذیرائی دے، پھر فواد چوہدری نے کہا کہ ایف آئی آر مدعی کی مرضی سے ہوتی ہے، تو کیا کل کو کوئی چیف جسٹس کا نام لکھ کر لائے اور کہے کہ ایف آئی آر درج کرو تو کیا ہو جائے گی۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ اگر آپ (عمران خان) جیسا کوئی شرپسند قومی اداروں پر بات کرے گا اور ملک میں فتنہ و فساد برپا کرنے کے لیے اس قسم کی بات کرے گا تو وہ تسلیم نہیں کی جائے گی۔ ایک سوال کے جواب میں وزیر داخلہ نے کہا کہ ہم گورنر ہاؤس پنجاب کو رینجرز اور ایف سی کے اہلکار فراہم کر رہے ہیں۔ رانا ثنااللہ نے کہا کہ اسلام آباد کی طرف جو لوگ آ رہے ہیں یہ کوئی مارچ نہیں ہو رہا بلکہ دو صوبے وفاق پر حملہ آور ہو رہے ہیں اور یہ احتجاج عوام نہیں ہے بلکہ یہ صوبائی حکومتیں کروا رہی ہیں۔